banner image

Home ur Surah Al Ahzab ayat 4 Translation Tafsir

اَلْاَحْزَاب

Al Ahzab

HR Background

مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖۚ-وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔیْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْۚ-وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ هُوَ یَهْدِی السَّبِیْلَ(4)

ترجمہ: کنزالایمان الله نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہ رکھے اور تمہاری ان عورتوں کو جنہیں تم ماں کے برابر کہہ دو تمہاری ماں نہ بنایا اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا بنایایہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے اور الله حق فرماتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان الله نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہ بنائے اور اس نے تمہاری ان بیویوں کو تمہاری حقیقی مائیں نہیں بنادیا جنہیں تم ماں جیسی کہہ دو اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہاراحقیقی بیٹا بنایا، یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے اور الله حق فرماتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ:اللہ نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہ بنائے۔} اس آیت کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اقوال ہیں  ،ان میں  سے ایک یہ ہے،علامہ ابنِ عربی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ایک دل میں  کفر اور ایمان،ہدایت اور گمراہی، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس سے اِنحراف جمع نہیں  ہو سکتے۔خلاصہ یہ ہے کہ ایک دل میں  دو مُتَضاد چیزیں  جمع نہیں  ہوتیں ۔(احکام القرآن لابن عربی، سورۃ الاحزاب، ۳ / ۵۳۷)اور اگر ظاہری دو دل مراد ہوں  یعنی یہ کہ ایک انسان کے اندردو ایک قسم کے دل نہیں  ہوسکتے تو یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اگر کسی میں  بالفرض یہ نظر آئے کہ اس میں  دل کی شکل کے دو گوشت کے لوتھڑے ہیں  تو ان میں  ایک حقیقی دل ہوگا اور دوسرا محض ایک اضافی گوشت ہوگا یعنی اُس آدمی کا نظامِ بدن صرف ایک حقیقی دل کے ساتھ وابستہ ہوگا۔ 

{وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔیْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ: اور اس نے تمہاری ان بیویوں  کو تمہاری حقیقی مائیں  نہیں  بنا دیا جنہیں  تم ماں  جیسی کہہ دو۔} زمانۂ جاہلیّت میں  جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ظِہار کرتا تھا تو وہ لوگ اس ظہار کو طلاق کہتے اور اس عورت کو اس کی ماں  قرار دیتے تھے اور جب کوئی شخص کسی کو بیٹا کہہ دیتا تھاتو اس کو حقیقی بیٹا قرار دے کر میراث میں  شریک ٹھہراتے اور اس کی بیوی کو بیٹا کہنے والے کے لئے حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام جانتے تھے۔ ان کے رد میں  یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جن بیویوں  کو تم نے ’’ماں  جیسی‘‘کہہ دیا ہے تو ا س سے وہ تمہاری حقیقی مائیں  نہیں  بن گئیں  اور جنہیں  تم نے اپنا بیٹا کہہ دیا ہے تو وہ تمہارے حقیقی بیٹے نہیں  بن گئے اگرچہ لوگ انہیں  تمہارا بیٹا کہتے ہوں ۔ بیوی کو ماں  کے مثل کہنا اور لے پالک بچے کو بیٹا کہنا ایسی بات ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ، نہ بیو ی شوہر کی ماں  ہو سکتی ہے نہ دوسرے کافر زند اپنا بیٹا اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ حق بیان فرماتا ہے اور وہی حق کی سیدھی راہ دکھاتا ہے، لہٰذانہ بیوی کو شوہر کی ماں  قرار دو اور نہ لے پالکوں  کو ان کے پالنے والوں  کا بیٹا ٹھہراؤ۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۴۸۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ص۹۳۱-۹۳۲، ملتقطاً)

ظہار سے متعلق3 شرعی مسائل:

اس آیت میں  عورت سے ظہار کرنے والوں  کا ذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں  ظہار سے متعلق 3شرعی مسائل ملاحظہ ہوں:

(1)…ظہار کا معنی یہ ہے کہ شوہر کا اپنی بیوی یا اُس کے کسی جُزو ِشائع (جیسے نصف،چوتھائی یا تیسرے حصے کو) یا ایسے جز کو جو کُل سے تعبیر کیا جاتا ہو، ایسی عورت سے تشبیہ دینا جو اس پر ہمیشہ کیلئے حرام ہو یا اس کے کسی ایسے عُضْوْ سے تشبیہ دینا جس کی طرف دیکھنا حرام ہو، مثلاً یوں کہا :تو مجھ پر میری ماں  کی مثل ہے، یا تیرا سر یا تیری گردن یا تیرا نصف میری ماں  کی پشت کی مثل ہے۔(درمختار و ردالمحتار، کتاب الظہار،۵ / ۱۲۵-۱۲۹، عالمگیری، کتاب الطلاق، الباب التاسع فی الظہار، ۱ / ۵۰۵)

(2)…ظہار کا حکم یہ ہے کہ (اس سے نکاح باطل نہیں  ہوتا بلکہ عورت بدستور ا س کی بیوی ہی ہوتی ہے البتہ) جب تک شوہر کفارہ نہ دیدے اُس وقت تک اُس عورت سے میاں  بیوی والے تعلقات قائم کرناحرام ہوجاتا ہے البتہ شہوت کے بغیر چھونے یا بوسہ لینے میں  حرج نہیں  مگر لب کا بوسہ شہوت کے بغیر بھی جائز نہیں ۔اگرکفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کرلیا تو توبہ کرے اور اُس کے لیے کو ئی دوسرا کفارہ واجب نہ ہوا مگر خبر دار پھر ایسا نہ کرے اور عورت کو بھی یہ جائز نہیں  کہ شوہر کو قُربت کرنے دے۔(جوہرۃ النیرہ، کتاب الظہار، ص۸۲، الجزء الثانی، درمختار وردالمحتار، کتاب الظہار، ۵ / ۱۳۰)

(3)…ظہار کاکفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے اور اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دو مہینے کے روزے لگاتاررکھے، ان دنوں  کے بیچ میں  نہ کوئی روزہ چھوٹے نہ دن کو یارات کوکسی وقت عورت سے صحبت کرے ورنہ پھر سرے سے روزے رکھنے پڑیں  گے، اور جو ایسا بیمار یا اتنا بوڑھا ہے کہ روزوں  کی طاقت نہیں  رکھتا وہ ساٹھ مسکینوں  کو دونوں  وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔( فتاویٰ رضویہ، باب الظہار، ۱۳ / ۲۶۹)

نوٹ: ظہار سے متعلق شرعی مسائل کی تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ ،جلد 13سے ’’ظہار کا بیان‘‘اور بہار شریعت،جلد 2 حصہ 8سے ’’ظہار کابیان‘‘ مطالعہ فر مائیں ۔

بیوی کو ماں ، بہن کہنے سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’زوجہ کو ماں  بہن کہنا (یعنی تشبیہ نہیں  دی، بغیر تشبیہ کے ماں ، بہن کہا)، خواہ یوں  کہ اسے ماں  بہن کہہ کر پکارے ،یا یوں  کہے :تومیری ماں  بہن ہے ،سخت گناہ و ناجائز ہے۔ قَالَ اللہ تَعَالٰی( اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:)

’’ مَا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْؕ-اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا اﻼ وَلَدْنَهُمْؕ- وَ اِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًا‘‘(مجادلہ :۲)

جورئیں (یعنی بیویاں )ان کی مائیں  نہیں  ،ان کی مائیں  تو وہی ہیں  جنہوں  نے اُنہیں  جنا ہے اور وہ بے شک بری اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔

مگر اس سے نہ نکاح میں  خلل آئے ،نہ توبہ کے سوا کچھ اور لازم ہو۔( فتاویٰ رضویہ، باب الظہار، ۱۳ / ۲۸۰)

اس شرعی مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں  کواپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو تنگ آ کر یامذاق مَسخری میں  اپنی بیوی سے یوں  کہہ دیتے ہیں  کہ ’’او میری ماں  !بس کر۔جا بہن چلی جا وغیرہ۔انہیں  چاہئے کہ پہلے جتنی بار ایسا کہہ چکے اس سے توبہ کریں  اور آئندہ خاص طور پر احتیاط سے کام لیں ۔

{ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ: یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے۔} آیت کے اس حصے میں  اشارہ بیوی کو ماں  کہہ دینے اور کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹاکہہ دینے دونوں  کی طرف ہے یا صرف کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹا کہہ دینے کی طرف ہے کیونکہ سابقہ کلام سے مقصود یہی ہے، یعنی تمہارا کسی کو’’ اے میرے بیٹے‘‘ کہنا تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔( ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۰۷، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۱۳۵، ملتقطاً)

مفسرین نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب حضرت زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح کیا تو یہود یوں  اور منافقوں  نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ (حضرت) محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے بیٹے زید کی بیوی سے شادی کرلی ہے۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بچپن میں اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے سر کارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  ہبہ کردیاتھا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں  آزاد کردیا، تب بھی وہ اپنے باپ کے پاس نہ گئے بلکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی خدمت میں رہے ۔

حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن پر شفقت و کرم فرماتے تھے، اس لئے لوگ اُنہیں  حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرزند کہنے لگے ۔ حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا پہلے حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے نکاح میں  تھیں  اور جب حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں  طلاق دے دی تو عدت گزرنے کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں  اپنی زوجیّت میں  آنے کاشرف عطا فرما دیا۔ اس پر یہودیوں  اور منافقوں  نے اعتراض کیا تویہاں  ان کا رد بھی فرما دیا گیا کہ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو لوگ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بیٹا کہتے ہیں  لیکن اس سے وہ حقیقی طور پر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بیٹے نہیں  ہوگئے ،لہٰذا یہودیوں  اور منافقوں کا اعتراض محض غلط ہے اور یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔(جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ص۳۵۱، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ص۹۳۱، ملتقطاً)