Home ≫ ur ≫ Surah Al Ahzab ≫ ayat 5 ≫ Translation ≫ Tafsir
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ-فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْكُمْؕ-وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖۙ-وَ لٰـكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(5)
تفسیر: صراط الجنان
{اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ: انہیں ان کے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارو۔} اس سے پہلی آیت میں لے پالک بچے کو پالنے والوں کا بیٹا قرار دینے سے منع کیا گیا اور اس آیت میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم ان بچوں کو ان کے حقیقی باپ ہی کی طرف منسوب کر کے پکارو، یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے ،پھر اگر تمہیں ان کے باپ کا علم نہ ہو اور اس وجہ سے تم انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب نہ کر سکو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور انسانیت کے ناطے تمہارے چچا زاد ہیں ، تو تم انہیں اپنا بھائی یا اے بھائی کہو اور جس کے لے پالک ہیں اس کا بیٹا نہ کہو اور ممانعت کا حکم آنے سے پہلے تم نے جو لا علمی میں لے پالکوں کو ان کے پالنے والوں کا بیٹا کہا اس پر تمہاری گرفت نہ ہو گی البتہ اس صورت میں تم گناہگار ہو گے جب ممانعت کا حکم آ جانے کے بعد تم جان بوجھ کر لے پالک کو اس کے پالنے والے کا بیٹا کہو۔ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان ہے، اسی لئے وہ غلطی سے ایسا ہو جانے پر گرفت نہیں فرماتا اور جس نے جان بوجھ کر ایساکیاہو ا س کی توبہ قبول فرماتا ہے۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴۸۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵، ص۹۳۲)
گود لئے ہوئے بچے کے حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام استعمال کرنے کا شرعی حکم:
بچہ گود لینا جائز ہے لیکن یہ یاد رہے کہ گود میں لینے والا عام بول چال میں یاکاغذات وغیرہ میں اس کے حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام استعمال نہیں کر سکتا بلکہ سب جگہ حقیقی باپ کے طور پر اس بچے کے اصلی والد ہی کا نام استعمال کرنا ہوگا اور اگر اصلی باپ کا نام معلوم نہیں تو اس کی معلومات کروا کر باپ کے طورپر حقیقی باپ کا نام لکھنا ہو گا اور اگر کوشش کے باوجود کسی طرح اس کے اصلی باپ کا نام معلوم نہ ہو سکے تو گود لینے والا گفتگو میں حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام ہر گز استعمال نہ کرے اور نہ ہی بچہ اسے حقیقی والد کے طور پراپنا باپ کہے ،اسی طرح کاغذات وغیرہ میں سر پرست کے کالم میں اپنا نام لکھے حقیقی والد کے کالم میں ہر گز نہ لکھے،اگر جان بوجھ کر خود کو حقیقی باپ کہے یالکھے گا تو یہ بھی درج ذیل دو وعیدوں میں داخل ہے،چنانچہ
(1)… حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اس کا باپ کوئی اور ہے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو کسی غیر کی طرف منسوب کرے تو اس پرجنت حرام ہے۔‘‘( بخاری، کتاب الفرائض، باب من ادعی الی غیر ابیہ، ۴ / ۳۲۶، الحدیث: ۶۷۶۶)
(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے خود کواپنے باپ کے غیرکی طرف منسوب کیایاجس غلام نے اپنے آپ کواپنے مولیٰ کے غیرکی طرف منسوب کیااس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ،فرشتوں کی اورتمام لوگوں کی لعنت ہو،قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کاکوئی فرض قبول فرمائے گانہ نفل۔‘‘( مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۱، الحدیث: ۴۶۷ (۱۳۷۰))
اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے کہ جو اپنے ہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے یا ویسے ہی کسی دوسرے کی اولاد گود میں لیتے ہیں اور اپنے زیرِ سایہ اس کی پرورش کرتے اور اس کی تعلیم و تربیت کے اخراجات برداشت کرتے ہیں ۔ان کا یہ عمل تو جائز ہے لیکن ان کی یہ خواہش اور تمناہر گزدرست نہیں کہ حقیقی باپ کے طور پر پالنے والے کا نام استعمال ہو اور نہ ہی ان کا یہ عمل جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا ہے کہ ’’اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ‘‘ (انہیں ان کے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارو۔) اور جباللہ تعالیٰ نے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارنے کاحکم فرما دیا اور اَحادیث میں ایسا نہ کرنے پر انتہائی سخت وعیدیں بیان ہو گئیں تو کسی مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کے حکم کے برخلاف اپنی خواہشات کو پروان چڑھائے اور خود کو شدید وعیدوں کا مستحق ٹھہرائے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
نوٹ: یاد رہے کہ اَحادیث میں بیان کی گئی وعیدوں کا مِصداق وہ صورت ہے جس میں بچے کا نسب حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا جائے جبکہ شفقت کے طور پر کسی کو بیٹا یابیٹی کہہ کر پکارنا یا کوئی معروف ہی کسی اور کے نام سے ہو تو پہچان کے لئے ا س کابیٹا یا بیٹی کہنا ان وعیدوں میں داخل نہیں ۔
بچہ یا بچی گود لینے سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ:
بچہ یا بچی گود میں لینا جائز ہے لیکن جب وہ ا س عمر تک پہنچ جائیں جس میں ان پر نامحرم مرد یا عورت سے پردہ کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس وقت بچے پر پالنے والی عورت سے اور بچی پر پالنے والے مرد سے پردہ کرنا بھی لازم ہوگا کیونکہ وہ اس بچے کے حقیقی یا رضاعی ماں باپ نہیں اِس لئے وہ اُ س بچے اوربچی کے حق میں محرم نہیں ،لہٰذا اگر بچہ گود میں لیا جائے تو عورت اسے اپنا یا اپنی بہن کادودھ پلا دے اور بچی گود میں لی جائے تو مرد اپنی کسی محرم عورت کا دودھ اسے پلوا دے، اس صورت میں ان کے درمیان رضاعی رشتہ قائم ہوجائے گا اور محرم ہو جانے کی وجہ سے پردے کی وہ پابندیاں نہ رہیں گی جو نامحرم سے پردہ کرنے کی ہیں ،البتہ یہاں مزید دو باتیں ذہن نشین ر ہیں ،
پہلی یہ کہ دودھ بچے کی عمر دوسال ہونے سے پہلے پلایا جائے اور اگردو سال سے لے کر ڈھائی سال کے درمیان دود ھ پلایا تو بھی رضاعت ثابت ہو جائے گی لیکن اس عمر میں دودھ پلانا ناجائز ہے اورڈھائی سال عمر ہو جانے کے بعد پلایا تو رضاعت ثابت نہ ہو گی۔
دوسری یہ کہ عورت نے بچے یا بچی کو اپنی بہن کا دودھ پلوایا تووہ اس کی رضاعی خالہ تو بن جائے گی لیکن اس کا شوہر بچی کا محرم نہ بنے گا ،لہٰذا بہتر صورت وہ ہے جو اوپر ذکر کی کہ بچے کو عورت کی محرم رشتہ دار کا دودھ پلوا لیا جائے اور بچی کو شوہر کی محرم رشتہ دار کا تاکہ پرورش کرنے والے پردے کے مسائل میں مشکلات کا شکار نہ ہوں ۔البتہ اِن مسائل میں کہیں پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے لہٰذا ایسا کوئی معاملہ ہو تو کسی قابل مفتی کو پوری تفصیل بتا کر عمل کیا جائے۔