Home ≫ ur ≫ Surah Al Ahzab ≫ ayat 6 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ-وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓىٕكُمْ مَّعْرُوْفًاؕ-كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا(6)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ: یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں ۔} اَولیٰ کے معنی ہیں زیادہ مالک، زیادہ قریب، زیادہ حقدار، یہاں تینوں معنی درست ہیں اور اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ دنیا اور دین کے تمام اُمور میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مسلمانوں پر نافذ اور آپ کی اطاعت واجب ہے اورآپ کے حکم کے مقابلے میں نفس کی خواہش کو ترک کر دینا واجب ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنین پر اُن کی جانوں سے زیادہ نرمی، رحمت اور لطف و کرم فرماتے ہیں اورانہیں سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں ،جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۸۳، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۳۲، ملتقطاً)
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورلوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی،جب ا س نے اپنے ماحول کوروشن کیا تو پروانے اور آگ میں گرنے والے کیڑے ا س میں گرنا شروع ہو گئے تو وہ آدمی انہیں آگ سے ہٹانے لگا لیکن وہ ا س پر غالب آ کر آگ میں ہی گرتے رہے، پس میں کمر سے پکڑ کر تمہیں آگ سے کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرتے ہی جا رہے ہو۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی، ۴ / ۲۴۲، الحدیث: ۶۴۸۳)
امام مجاہد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنی امت کے باپ ہوتے ہیں اور اسی رشتہ سے مسلمان آپس میں بھائی کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے نبی کی دینی اولاد ہیں ۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۳۲)
رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مالکیت:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’سچی کامل مالکیت وہ ہے کہ جان وجسم سب کو محیط اورجن وبشر سب کوشامل ہے، یعنی اَوْلٰی بِالتَّصَرُّفْ (تصرف کرنے کا ایسا مالک) ہونا کہ اس کے حضور کسی کو اپنی جان کابھی اصلاً اختیارنہ ہو۔ یہ مالکیت ِحقہ، صادقہ، محیط، شاملہ، تامہ، کاملہ حضور پُرنورمَالِکُ النَّاس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بخلافت ِکبرٰیٔ حضرت کبریا عَزَّوَعَلَا تمام جہاں پرحاصل ہے۔ قَالَ اللہ تَعَالٰی:
’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘
نبی زیادہ والی ومالک ومختارہے، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں سے۔
وَقَالَ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی(اور اللہ تَبَارَک وَتَعَالٰی نے فرمایا:)
’’وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا‘‘(احزاب:۳۶)
ترجمۂ کنز العرفان: نہیں پہنچتا کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو جب حکم کردیں اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا کہ انہیں کچھ اختیاررہے اپنی جانوں کا، اور جوحکم نہ مانے اللہ ورسول کاتو وہ صریح گمراہ ہوا۔
رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’اَنَا اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ‘‘ میں زیادہ والی و مالک ومختارہوں ، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں سے(بخاری، کتاب الکفالۃ، باب الدَّین،۲ / ۷۷، الحدیث: ۲۲۹۸)۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: النور والضیاء فی احکام بعض الاسماء، ۲۴ / ۷۰۳-۷۰۴)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایمان والوں کے سب سے زیادہ قریبی ہیں :
مسلمانوں پر جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنے کے حوالے سے دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ قریب ہیں ، چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں دنیا اور آخرت میں ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں ،اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:
’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘
یہ نبی ایمان والوں سے ان کی جانوں کی نسبت زیادہ قریب ہے۔
تو جس مسلمان کاانتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ ا س کے عَصبہ (یعنی وارثوں ) کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں کہ میں ان کا مددگار ہوں ۔( بخاری، کتاب فی الاستقراض واداء الدیون۔۔۔ الخ، باب الصلاۃ علی من ترک دَیناً، ۲ / ۱۰۸، الحدیث: ۲۳۹۹)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں جب کسی مومن کا انتقال ہوجاتاتواسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کیاجاتا۔حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دریافت فرماتے ’’کیااس کے ذمہ کوئی قرض ہے ؟ اگرلوگ کہتے :ہاں ،تونبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دریافت فرماتے’’ کیااس نے مال چھوڑاہے جوا س کا قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہو؟اگرلوگ بتاتے: جی ہاں ، تونبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی نمازجنازہ پڑھتے تھے اوراگرلوگ یہ بتاتے کہ مال نہیں چھوڑا، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے: ’’تم اپنے ساتھی کی نمازجنازہ پڑھو۔پھرجباللہ تعالیٰ نے ہمیں فتوحات عطافرمائیں تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’میں مومنوں کے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریبی ہوں ۔ جس نے قرض چھوڑاوہ میرے ذمہ ہے اورجس نے مال چھوڑاوہ وارث کے لیے ہے۔( بخاری ، کتاب الکفالۃ ، باب الدَّین ، ۲ / ۷۷ ، الحدیث: ۳۲۹۸، مسند ابو داؤد طیالسی، ما روی ابو سلمۃ عن عبد الرحمٰن عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہم، ص۳۰۷، الحدیث: ۲۳۳۸)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اپنے نفس کی اطاعت پر مقدم ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین و دنیا کے تمام اُمور میں نفس کی اطاعت پرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت مقدم ہے کہ اگر کسی مسلمان کو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی چیز کا حکم دیں اور ا س کی خواہش کوئی اور کام کرنے کی ہو تو ا س پر لازم ہے کہ اپنی خواہش کو پورا نہ کرے بلکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جس چیز کا حکم دیا ہے اسے ہی کرے۔ یاد رہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا‘‘(النساء:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تمہیں انہیں بچانے کے لئے نہیں بھیجا۔
اور نفس کے مقابلے میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ا س چیز کی طرف بلاتے ہیں جس میں لوگوں کی نجات ہے اور نفس اس چیز کی طرف بلاتا ہے جس میں لوگوں کی ہلاکت ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری اور ا س کی مثال جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے،اُس آدمی جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہنے لگا:میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایک بہت بڑ الشکر دیکھا ہے اور میں واضح طور پر تمہیں اس سے ڈراتا ہوں ، لہٰذا اپنے آپ کو بچا لو،اپنے آپ کو بچا لو۔پس ایک گروہ نے اس کی بات مانی اور کسی محفوظ مقام کی طرف چلے گئے، یوں انہوں نے نجات پالی اور دوسرے گروہ نے اسے جھٹلایا تو صبح سویرے وہ بڑ الشکر ان پر ٹوٹ پڑا اور سب کو تہ تیغ کر دیا۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی، ۴ / ۲۴۲، الحدیث: ۶۴۸۲)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دینی اور دُنْیَوی تمام اُمور میں اپنے نفس کی اطاعت کرنے کی بجائے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت وفرمانبرداری کرے تاکہ ہلاکت سے بچ کر نجات پا جائے۔
{وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ: اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔} نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات کو مومنوں کی مائیں فرمایا گیا، لہٰذا اُمَّہاتُ المومنین کا تعظیم و حرمت میں اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہونے میں وہی حکم ہے جو سگی ماں کا ہے جبکہ اس کے علاوہ دوسرے احکام میں جیسے وراثت اور پردہ وغیرہ، ان کا وہی حکم ہے جو اجنبی عورتوں کا ہے یعنی ان سے پردہ بھی کیا جائے گا اور عام مسلمانوں کی وراثت میں وہ بطورِ ماں شریک نہ ہوں گی،نیز امہات المومنین کی بیٹیوں کو مومنین کی بہنیں اور ان کے بھائیوں اور بہنوں کو مومنین کے ماموں ، خالہ نہ کہا جائے گا۔( بغوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۳۷، ملخصاً)
یہ حکم حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ان تمام ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے لئے ہے جنسے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نکاح فرمایا، چاہے حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد انہوں نے وفات پائی ہو۔ یہ سب کی سب امت کی مائیں ہیں اور ہر امتی کے لئے اس کی حقیقی ماں سے بڑھ کر لائقِ تعظیم و وا جبُ الاحترام ہیں ۔( زرقانی علی المواہب، المقصد الثانی، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۶-۳۵۷)
{ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ: اور رشتہ والے ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں ۔} نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہجرت کے بعد بعض مہاجرین کو بعض انصار کا بھائی بنا دیا تھا اور اس رشتے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے وارث ہوا کرتے تھے، پھر یہ آیت نازل ہوئی اور فرما دیاگیا کہ میراث رشتہ داروں کاحق ہے اورانہی کوملے گی، ایمان یا ہجرت کے رشتہ سے جومیراث ملتی تھی وہ اب نہیں ملے گی البتہ تم دوستوں پر اس طرح احسان کرسکتے ہوکہ ان میں سے جس کے لئے چاہو کچھ مال کی وصیت کردو تووہ وصیت مال کے تیسرے حصے کی مقدار وراثت پر مُقَدَّم کی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ رشتہ دار ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں ، دینی برادری کے ذریعے کوئی اجنبی اب وارث نہیں ہوسکتا۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۸۳، تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۶۱۴، ملتقطاً)