Home ≫ ur ≫ Surah Al Ahzab ≫ ayat 69 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاﭤ(69)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى: اے ایمان والو!ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا۔} سورت کی ابتداء سے لے کریہاں تک منافقین کی اَنواع واَقسام کی ایذاؤں کاذکرتھا اور اب یہاں سے بنی اسرائیل کے طرزِ عمل کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تنبیہ کی جا رہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب و احترام بجالاؤ اورکوئی ایسی بات نہ کہنا اور نہ کوئی ایساکام کرنا جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رنج و ملال کا باعث ہو اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ستایا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کااس سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں کہا تھا۔( قرطبی،الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۹، ۷ / ۱۸۴، الجزء الرابع عشر، تفسیر طبری، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱۰ / ۳۳۶، ملتقطاً)
یہاں اس آیت سے متعلق دو باتیں یاد رہیں :
(1)…یہ ضرور ی نہیں کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے کوئی ایسا کام سرزد ہوا ہو جس سے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اَذِیَّت پہنچی تھی اور اس پر انہیں یہاں آیت میں تنبیہ کی گئی، بلکہ عین ممکن ہے کہ آئندہ ایسے کام سے بچانے کے لئے پیش بندی کے طور پر انہیں تنبیہ کی گئی ہو۔اَحادیث میں جو بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا واقعہ منقول ہے اُس کا مَحمل بھی یہی ہے کہ اُس وقت ان کی اِس بات کی طرف توجہ نہ ہوئی ہو گی کہ یہ کلمہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے ایذا کا باعث ہے کیونکہ کسی صحابی سے ایسا ممکن نہیں کہ وہ جان بوجھ کر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا پہنچائیں اور جتنے واقعات جان بوجھ کر ایذا پہنچانے کے ہیں وہ سب منافقین کے ہیں ۔
(2)…بنی اسرائیل نے کیا کہہ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ستایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بری ہونا کس طرح دکھا یا تھا،اس سے متعلق مفسرین نے مختلف واقعات ذکر کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پاگئے توبنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: آپ نے ان کوقتل کیاہے اوروہ آپ کی بہ نسبت ہم سے زیادہ محبت کرنے والے تھے اورآپ کی بہ نسبت زیادہ نرم مزاج تھے۔ بنی اسرائیل نے ان باتوں سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواذیت پہنچائی تواللہ تعالیٰ نے فرشتوں کوحکم دیا، وہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسم مبارک اٹھاکرلائے اوران کی وفات کی خبردی۔ تب بنی اسرائیل نے سمجھ لیا کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام طبعی موت سے فوت ہوئے ہیں اوراس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کوان کی تہمت سے بری کردیا۔
ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ قارون نے ایک عورت کو بہت سا مال دے کر ا س بات پر تیار کیا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر زنا کی تہمت لگائے تو اللہ تعالیٰ نے اسی عورت کے اقرار سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اس قبیح فعل سے پاک ہونا دکھا دیا۔( خازن ، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۶۹ ، ۳ / ۵۱۳ ، طبری ، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱۰ / ۳۳۸، ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۹، ۴ / ۳۳۵، ملتقطاً)
{وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًا: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔} آیت کے اس حصے میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان بیان فرمائی گئی کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے تھے یعنی بڑے مقام والے تھے اور اِس مقام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات تھے یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۵۱۳۔)
مفسرین نے وجیہ کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعائیں مقبول تھیں ، اسی مناسبت سے یہاں سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں کی قبولیت کا حال ملاحظہ ہو،چنانچہ
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے دعا فرمائی : اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اس کے مال اور اس کی اولاد کو زیادہ کر دے۔حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :خدا کی قسم! (اس دعا کی برکت سے) میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میری اولاد اور اولاد کی اولاد سو کے قریب ہے۔( مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ص۱۳۴۷، الحدیث: ۱۴۳(۲۴۸۱))
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : (اس دعا کے بعد حال یہ تھا کہ) اگر میں پتھر اٹھاتا تو مجھے یہ امید ہوتی کہ اس کے نیچے سونا ہو گا۔
حضرت معاویہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے حکومت کی دعا مانگی تو انہیں حکومت حاصل ہوئی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات ہونے کی دعا کی تو وہ جس کے خلاف بھی دعاکرتے تھے ان کی دعا قبول ہوتی تھی۔
حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے دعا کی کہ تمہارا چہرہ کامیاب ہو،اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ان کے بالوں اور جسم میں برکت دے، چنانچہ جس وقت آپ کی وفات ہوئی اس وقت سَتّر سال کے ہونے کے باوجود پندرہ سال کے معلوم ہوتے تھے۔(الشفا،القسم الاول، الباب الرابع فی فیما اظہرہ اللّٰہ علی یدیہ من المعجزات، فصل فی اجابۃ دعاء ہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۳۲۵-۳۲۷، الجزء الاول)
سرِ دست یہاں چند واقعات کا خلاصہ لکھا ہے ورنہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں کی قبولیت کے واقعات بڑی کثرت سے ہیں اِس کے لئے علامہ سیوطی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کی کتاب الخصائص الکبریٰ کا مطالعہ فرمائیں۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
جلو میں اجابت خواصی میں رحمت
بڑھی کس تزک سے دعائے محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا
بڑھی ناز سے جب دعائے محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نکلی دُعائے محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ