Home ≫ ur ≫ Surah Al Ahzab ≫ ayat 72 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُؕ-اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا(72)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ: بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر امانت پیش فرمائی۔} اس آیت میں امانت سے کیا مراد ہے،اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ،ان میں سے 5قول درج ذیل ہیں ۔
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : امانت سے مراد طاعت و فرائض ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پیش کیا، انہیں کو آسمانوں ، زمینوں اورپہاڑوں پر پیش کیا تھا کہ اگر وہ انہیں ادا کریں گے تو ثواب دیئے جائیں گے اورنہ ادا کریں گے تو عذاب کئے جائیں گے۔
(2)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: امانت سے مراد نمازیں ادا کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا، خانہ کعبہ کا حج کرنا، سچ بولنا، ناپ تول میں اور لوگوں کی امانتوں میں عدل کرنا ہے۔
(3)… بعض مفسرین نے کہا ہے کہ امانت سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کا حکم دیا گیا اور جن کی ممانعت کی گئی۔
(4)… حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے فرمایا: تمام اَعضاء کان، ہاتھ اورپاؤں وغیرہ سب امانت ہیں ، اس کا ایمان ہی کیا جو امانت دار نہ ہو۔
(5)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا ایک قول یہ بھی ہے کہ امانت سے مراد لوگوں کی امانتوں اور عہدوں کو پورا کرنا ہے، تو ہر مومن پر فرض ہے کہ نہ کسی مومن کی خیانت کرے نہ ا س کافر کی جس کا مسلمانوں سے معاہدہ ہے اور یہ خیانت نہ قلیل امانت میں ہو نہ کثیر میں ۔
ان پانچوں اقوال میں پہلے چار اقوال تو تقریباً ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ واختیار کی قوت سے نواز کر جو احکام کا پابند بنایا ہے وہ مراد ہے اور پانچویں قول میں اسی مفہوم کی ایک خاص صورت کا بیان ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ امانت آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں پر پیش فرمائی، پھر ان سے فرمایا: ’’ کیا تم اس اَمان کواس کی ذمہ داری کے ساتھ اٹھاؤ گے ؟ انہوں نے عرض کی: ذمہ داری کیا ہے ؟ارشاد فرمایا’’ذمہ داری یہ ہے کہ اگر تم انہیں اچھی طرح ادا کرو تو تمہیں جزا دی جائے گی اور اگر نافرمانی کرو تو تمہیں عذاب کیا جائے گا۔ انہوں نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم ا س امانت کو نہیں اٹھا سکتے، ہمیں نہ ثواب چاہئے نہ عذاب،ہم بس تیرے حکم کے اطاعت گزار ہیں ۔ ان کا یہ عرض کرنا خوف اور خَشْیَت کے طور پرتھا اور امانت اختیار کے طور پر پیش کی گئی تھی یعنی انہیں اختیار دیا گیا تھا کہ اپنے میں قوت اور ہمت پائیں تو اٹھائیں ورنہ معذرت کر دیں ، اس امانت کو اٹھانا لازم نہیں کیا گیا تھا اور اگر لازم کیا جاتا تو وہ انکار نہ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وہ امانت حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے پیش کی اور ارشادفرمایا کہ میں نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر یہ امانت پیش کی تھی مگر وہ اسے نہ اٹھا سکے :کیا تم اس کی ذمہ داری کے ساتھ اسے اٹھا سکو گے ؟ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اقرار کیا اور اس امانت کو اٹھالیا۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۵۱۴)