banner image

Home ur Surah Al Ahzab ayat 8 Translation Tafsir

اَلْاَحْزَاب

Al Ahzab

HR Background

وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا(7)لِّیَسْــٴَـلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِهِمْۚ-وَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا(8)

ترجمہ: کنزالایمان اور اے محبوب یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے اور ہم نے ان سے گاڑھا عہد لیا۔ تاکہ سچوں سے ان کے سچ کا سوال کرے اور اس نے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اے محبوب!یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے اُن کا عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (عہد لیا) اور ہم نے ان (سب) سے بڑا مضبوط عہد لیا۔ تاکہ الله سچوں سے ان کے سچ کا سوال کرے اور اس نے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ: اور اے محبوب!یاد کرو جب ہم نے نبیوں  سے ان کا عہد لیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ وقت یاد کرو جب ہم نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے رسالت کی تبلیغ کرنے اور دین ِحق کی دعو ت دینے کا عہد لیا اور خصوصیت کے ساتھ آپ سے اور حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عہد لیااور ہم نے ان سب سے بڑا مضبوط عہد لیا تاکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سچوں  سے ان کے سچ کا سوال کرے۔ایک قول یہ ہے کہ سچوں  سے مراد انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں  اور ان سے سچ کا سوال کرنے سے مراد یہ ہے کہ جو انہوں  نے اپنی قوم سے فرمایا اور جس کی انہیں  تبلیغ کی وہ دریافت فرمائے، یا اس کے یہ معنی ہیں  کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی امتوں  نے جو جواب دیئے وہ دریافت فرمائے اور اس سوال سے مقصود کفار کوذلیل ورسوا کرنا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ سچوں  سے مراد مومنین ہیں  اور سچ کا سوال کرنے سے مراد ان کی تصدیق کے بارے میں  سوال کر نا ہے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۹۳۳، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۷ / ۱۴۱-۱۴۲، ملتقطاً)

 حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی افضلیت کا اظہار:

            اِس آیت میں  بالخصوص پانچ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکرکرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ انبیاء اُولُوا الْعزم رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں  سے تھے، اوریہاں  نہایت اہم نکتہ ہے کہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جن کا اس آیت میں  ذکر ہوا، ان کا تذکرہ اسی ترتیب سے ہوا جس ترتیب سے وہ دنیا میں  تشریف لائے لیکن حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اگرچہ تمام نبیوں  کے بعد ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دوسرے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کیا اور یہ انداز تمام نبیوں  پر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی افضلیت کے اظہار کے لئے ہے۔