Home ≫ ur ≫ Surah Al Ala ≫ ayat 7 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ-اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا یَخْفٰىﭤ(7)
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ: مگر جو اللّٰہ چاہے۔} اس اِستثناء کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ،ان میں سے 4 قول درج ذیل ہیں ،
(1)…یہ اِستثناء تَبَرُّ ک کے لئے ہے ، حقیقت میں حاصل نہیں ہوا اور جب اللّٰہ تعالیٰ نے پڑھا دیا تو اس کے بعد نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کوئی چیز نہیں بھولے ۔
(2)…اس استثناء سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کوئی چیز بھلانا چاہے تو وہ ا س پر قدرت رکھتا ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَىٕنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ‘‘(بنی اسرائیل:۸۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر ہم چاہتے توہم جو آپ کی طرف وحی بھیجتے ہیں اسے لے جاتے۔
اور ہمیں یقین ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا۔
(3)…اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ (قرآنِ مجید میں سے) جو کچھ پڑھیں گے اس میں سے کچھ نہ بھولیں گے البتہ جس آیت کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ خود چاہے گا وہ آپ کو بھلا دے گا اور ا س کی صورت یہ ہو گی کہ اللّٰہ تعالیٰ اس آیت کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ فرما دے گا۔یاد رہے کہ جن آیتوں کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوئے ہیں وہ تمام آیتیں حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نہیں بھولے بلکہ ان میں سے جن آیتوں کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا انہیں آپ کے دل سے اٹھا لیا ۔
(4)…یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں بھولنے سے معروف معنی مراد ہوں یعنی عارضی طور پر بھول جانا،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہو گا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ قرآن مجیدمیں سے کچھ نہ بھولیں گے البتہ جو اللّٰہ تعالیٰ خود چاہے وہ بھول جائیں گے ،پھر وہ چیز ہمیشہ کے لئے بھولی نہ رہے گی بلکہ بعد میں یاد آ جائے گی۔ اس معنی کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں حضورِاَ قدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا کسی آیت کو بھول جانے کاذکر ہے اور ان سے یہ واضح ہوتا ہے بعض مواقع پر حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ (عارضی طور پر) کچھ آیات بھولے تھے اور آپ کا یہ بھولنا امت کے بھولنے کی طرح نہیں ہے ۔(تفسیرکبیر،الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۱ / ۱۳۱، روح البیان، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۴۰۶، روح المعانی، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۵ / ۴۴۴-۴۴۵، ملتقطاً)
{اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا یَخْفٰى: بیشک وہ ہر کھلی اور چھپی بات کوجانتا ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، جب آپ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ بلند آواز سے پڑھتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اورآپ کے دل میں جو قرآن بھول جانے کا خوف ہے اسے بھی جانتاہے، لہٰذا آپ اسے بھول جانے کا خوف نہ کریں ،یہ ہمارے ذمہ ِکرم پر ہے کہ آپ قرآن نہ بھولیں ۔( تفسیرکبیر، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۱ / ۱۳۱)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ بندوں کے ظاہری افعال اور ان کے اقوال جانتا ہے اور ان کے پوشیدہ اقوال اور افعال سے بھی خبردارہے۔( تفسیر سمرقندی، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۷۰)
ظاہر و باطن دونوں کو درست رکھنا چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنا ظاہر بھی ٹھیک کرنا چاہئے اور اپنا باطن بھی درست رکھنا چاہئے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے ہر ظاہری ،باطنی قول اور فعل سے باخبر ہے،جیسا کہ ہمارے ظاہری اور پوشیدہ اعمال کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ‘‘(انعام:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ تمہاری ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے اور وہ تمہارے سب کام جانتا ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْتُمُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ بلند آواز سے کہی گئی بات کو جانتا ہے اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَاؕ-اَفَمَنْ یُّلْقٰى فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْۤ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ جو ہماری آیتوں میں سیدھی راہ سے ہٹتے ہیں وہ ہم پر پوشیدہ نہیں ہیں تو کیا جسے آ گ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت میں امان سے آئے گا۔ تم جو چاہو کرتے رہو ،بیشک اللّٰہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
اورحضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جس نے اپنے اور اللّٰہ تعالیٰ کے مابین معاملے کو اچھا کر لیا تو اللّٰہ تعالیٰ اسے ا س کے اور لوگوں کے درمیان معاملے کو کافی ہو گا اور جس نے اپنے باطن کی اصلاح کر لی تو اللّٰہ تعالیٰ ا س کے ظاہر کو درست کر دے گا۔ (جامع صغیر، حرف المیم، ص۵۰۸، الحدیث: ۸۳۳۹)
لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے باطن کو سنوارنے کی بھر پور کوشش کرے اور اس کے لئے یہ دعا بھی مانگا کرے، چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں مجھے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ دعا سکھائی ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مِّنْ عَلَانِیَتِیْ وَاجْعَلْ عَلَانِیَتِیْ صَالِحَۃً، اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِی النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْاَہْلِ وَالْوَلَدِ غَیْرِ الضَّآلِّ وَلَا الْمُضِلِّ‘‘ اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، میر ا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو نیک و صالح بنادے ۔ اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے وہ اچھا گھر بار ، مال اولاد، جو نہ گمراہ ہو اور نہ گمراہ گر ہو مانگتا ہوں جو تو لوگوں کو دیتا ہے۔( ترمذی، احادیث شتی، ۱۲۳-باب، ۵ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۵۹۷)