Home ≫ ur ≫ Surah Al Ala ≫ ayat 9 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰىﭤ(9)
تفسیر: صراط الجنان
{فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى: تو تم نصیحت فرماؤ ،ا گر نصیحت فائدہ دے۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر نصیحت فائدہ دے اور کچھ لوگ اس سے فائدہ حاصل کریں تو آپ اس قرآنِ مجید سے نصیحت فرمائیں ۔
نصیحت فائدہ دے یا نہ دے، بہر حال نصیحت کرنے کا حکم ہے:
یاد رہے کہ یہاں نصیحت کرنے میں جو نصیحت فائدہ دینے کی شرط لگائی گئی ،اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر نصیحت فائدہ نہ دے تو نصیحت نہ کی جائے بلکہ نصیحت فائدہ دے یا نہ دے دونوں صورتوں میں نصیحت کرنے کا حکم ہے کیونکہ قرآنِ پاک کی آیات میں مفہومِ مخالف کاا عتبار نہیں ہے اور یہ آیت بھی انہیں آیات میں سے ہے اور قرآنِ پاک میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ،جیسے ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ﳓ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا‘‘(النساء:۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کافروں کی طرف سے اَذِیَّت پہنچنے کا خوف نہ ہو تو نمازوں میں قَصر نہیں کر سکتے بلکہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ سفر کے دوران چاہے امن ہو یا خوف دونوں صورتوں میں (4 رکعت والی) نمازوں میں قصر کی جائے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا‘‘(نور:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو (خصوصاً) اگر وہ خود (بھی) بچنا چاہتی ہوں ۔
اس ممانعت کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ بدکاری سے بچنا نہ چاہتی ہوں تو تم انہیں بدکاری پر مجبور کرو بلکہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ بہر صورت انہیں بدکاری پر مجبور نہ کرو۔