banner image

Home ur Surah Al Alaq ayat 10 Translation Tafsir

اَلْعَلَق

Al Alaq

HR Background

اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْهٰى(9)عَبْدًا اِذَا صَلّٰىﭤ(10)

ترجمہ: کنزالایمان بھلا دیکھو تو جو منع کرتا ہے۔ بندہ کو جب وہ نماز پڑھے ۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے۔ بندے کو جب وہ نماز پڑھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْهٰى: کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے۔} شانِ نزول :یہ آیتیں  بھی ابو جہل کے بارے میں  نازل ہوئیں ، ابوجہل نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو نماز پڑھنے سے منع کیا اور لوگوں  سے کہا تھا کہ اگر میں  اُنہیں  ایسا کرتا دیکھوں  گا تو ( مَعَاذَ اللّٰہ) گردن پاؤں  سے کچل ڈالوں  گا اور چہرہ خاک میں  ملادوں  گا۔ایک مرتبہ حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نماز پڑھ رہے تھے کہ ابو جہل اسی فاسد ارادے سے آیا اور حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے قریب پہنچ کر الٹے پاؤں  ہاتھ آگے بڑھائے ہوئے (ایسے) پیچھے بھاگا (جیسے کوئی کسی مصیبت کو روکنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے،اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور اعضاء کانپنے لگے۔) لوگوں  نے اس سے کہا:تجھے کیا ہوا ہے؟ابوجہل کہنے لگا: میرے اور محمد (مصطفٰی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کے درمیان ایک خندق ہے جس میں  آگ بھری ہوئی ہے اور دہشت ناک پر ندے بازو پھیلائے ہوئے ہیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا ’’اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا عُضْوْ عُضو جدا کر ڈالتے۔( خازن ، العلق ، تحت الآیۃ : ۱۰، ۴ / ۳۹۴، مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار، باب قولہ: انّ الانسان لیطغی... الخ، ص۱۵۰۳، الحدیث: ۳۸(۲۷۹۷))

اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو میرے کامل بندے کو نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے ۔

اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور نماز پڑھنے سے روکنے کی وعید:

بعض مفسرین فرماتے ہیں  :اس وعید میں  ہر وہ شخص داخل ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور نماز پڑھنے سے روکے۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۴ / ۳۹۴)

ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

 ’’ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىٕفِیْنَ۬ؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘‘(بقرہ:۱۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگاجو اللّٰہ کی مسجدوں  کو اس بات سے روکے کہ ان میں  اللّٰہ کا نام لیا جائے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے ۔ انہیں مسجدوں  میں  داخل ہونا مناسب نہ تھا مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لئے دنیا میں  رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں  بڑا عذاب ہے۔

یاد رہے کہ اس میں  وہ صورتیں  داخل نہیں  جن میں  کسی کو نماز پڑھنے یا عبادت کرنے سے روکنا جائز ہے جیسے غصب کی ہوئی زمین میں  نماز پڑھنے والے کو روکنا،مکروہ اوقات میں  نماز پڑھنے والے کو روکنا،شوہر کا اپنی بیوی کو نفل نماز پڑھنے، نفلی روزہ اور نفلی اعتکاف کرنے سے روکنا وغیرہ۔یونہی مالک غلام کو، اور اجیرِ خاص کو نوافل سے روک سکتا ہے۔ مگر فقہا ء فرماتے ہیں  کہ جو کراہت کے وقت نماز پڑھنے لگے، تو اسے نماز سے نہ روکو، بعد میں  مسئلہ سمجھا دو، تا کہ اس آیت کی زد میں  نہ آجاؤ۔ مزید یہ کہ اور بھی کچھ لوگوں  کو مسجد سے روکا جا سکتا ہے جیسے نا سمجھ بچہ، یا دیوانہ کو جسے پیشاب پاخانہ کی تمیز نہ ہو، جس کے منہ سے کچے پیاز یا لہسن یا حُقہ کی بو آرہی ہو، جس کے جسم پر بدبودار زخم ہو، وہ بد مذہب جس کے مسجد میں  آنے سے فساد ہو۔