Home ≫ ur ≫ Surah Al Alaq ≫ ayat 11 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَرَءَیْتَ اِنْ كَانَ عَلَى الْهُدٰۤى(11)اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰىﭤ(12)
تفسیر: صراط الجنان
{اَرَءَیْتَ اِنْ كَانَ عَلَى الْهُدٰى: بھلا دیکھو تو اگر وہ ہدایت پر ہوتا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،ذرادیکھو تو اگر نماز سے روکنے والا وہ کافر ہدایت پر ہوتا اور دوسروں کوپرہیزگاری کا حکم دیتا تووہ کتنے بلند مَراتب حاصل کرتا۔ (تفسیر کبیر، العلق، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۱۱ / ۲۲۲)اگر ابو جہل ایمان قبول کر لیتا تو اسے یہ مراتب ملتے کہ وہ مومن ہوتا، پھر حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دیدارسے صحابی بن جاتا، حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا عزیز ہو کر اللّٰہ تعالیٰ کا پیارا بن جاتا،بیتُ اللّٰہ شریف میں رہتا تھا اس لئے ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ پاتا، وہ قوم کا سردار تھا اوراس کی وجہ سے اس کے ماتحت لوگ بھی ایمان لے آتے تو ان سب کا ثواب بھی اسے ملتا ۔
سورہِ علق کی آیت نمبر11اور 12سے حاصل ہونے والی معلومات:
ان آیات سے 3 باتیں معلوم ہوئیں
(1)… گزشتہ لوگوں کی سر کشی میں غور کرنے سے بھی ہدایت نصیب ہوتی ہے۔
(2)… نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے زمانہ والوں کو ایمان کے ذریعہ جو درجے نصیب ہو سکتے تھے وہ بعد والوں کے لئے ممکن نہیں ۔
(3)… بڑابد نصیب وہ ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ اچھا موقع دے اور وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔