Home ≫ ur ≫ Surah Al Alaq ≫ ayat 18 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَلْیَدْعُ نَادِیَهٗ(17)سَنَدْعُ الزَّبَانِیَةَ(18)
تفسیر: صراط الجنان
{فَلْیَدْعُ نَادِیَهٗ: تو اسے چاہیے کہ اپنی مجلس کوپکارے۔} شانِ نزول :جب ابوجہل نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نماز سے منع کیا تو حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اس کو سختی سے جھڑک دیا، اِس پر اُس نے کہا کہ آپ مجھے جھڑکتے ہیں،خدا کی قسم! میں آپ کے مقابلے میں نوجوان ، سواروں اور پیدلوں سے اس جنگل کو بھردوں گا، آپ جانتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں مجھ سے زیادہ بڑے جتھے اور مجلس والا کوئی نہیں ہے۔اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ، جن کا مفہوم یہ ہے کہ ابو جہل اپنی مجلس والوں کو پکار لینے کی دھمکی لگا رہا ہے تو اسے چاہیے کہ میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں اپنی مدد کیلئے اپنی مجلس کوپکارے ،اگر ا س نے ایسا کیا توہم بھی جلدہی دوزخ کے فرشتوں کو بلائیں گے جن کا مقابلہ کرنے کی طاقت ان میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۴ / ۳۹۴، تفسیر کبیر، العلق، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۱۱ / ۲۲۶، ملتقطاً)
حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ اگر ابو جہل اپنی مجلس کو بلا تا تو فرشتے اسے اعلانیہ طور پر گرفتار کرلیتے‘‘۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ اقرأ باسم ربک، ۵ / ۲۳۰، الحدیث: ۳۳۵۹)
سورہِ علق کی آیت نمبر17اور18سے حاصل ہونے والی معلومات:
ان آیات سے 3 باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے ایسے محبوب ہیں کہ آپ کا دشمن اللّٰہ تعالیٰ کا دشمن ہے کہ ابو جہل نے حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دھمکی لگائی کہ وہ اپنی مجلس کے لوگوں کو بلا لے گاتو حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ نہ فرمایا کہ ہم صحابہ کی جماعت کو بلا لیں گے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم زَبانیہ فرشتوں کو بلا لیں گے۔
(2)…نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی شان ظاہر کرنے کے لئے فرشتوں کی فوج آنے کو تیار ہے ورنہ کفار کی ہلاکت کے لئے تو ایک ہی فرشتہ کافی ہے۔
(3)…امر کا ہر صیغہ وجوب کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اور چیزوں کے لئے بھی ہوتا ہے جیسے یہاں امر کا صیغہ تو ہے لیکن وجوب کے لئے نہیں بلکہ اظہارِ غضب کے لئے ہے۔