ترجمہ: کنزالایمان
اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ کیا تمہارے پاس تم میں کے رسول نہ آئے تھے تم پر میری آیتیں پڑھتے اور تمہیں یہ دن دیکھنے سے ڈراتے کہیں گے ہم نے اپنی جانوں پر گواہی دی اور انہیں دنیا کی زندگی نے فریب دیا اور خود اپنی جانوں پر گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تم میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر میری آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں تمہارے آج کے اس دن کی حاضری سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیتے ہیں اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا اور وہ خود اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ
الْاِنْسِ:اے جنوں
اور آدمیوں کے گروہ!۔} اس آیتِ
مبارکہ میں جنات اور انسان دونوں سے خطاب ہوا کہ اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ! کیا
تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تمہیں میری آیتیں پڑھ پڑھ کے سناتے
تھے اور تمہیں اس دن یعنی روزِ قیامت کی حاضری اور عذابِ الٰہی سے ڈراتے تھے؟ کافر
جن اور انسان اقرار کریں گے کہ رسول اُن کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے زبانی
پیام پہنچایا اور اس دن کے پیش آنے والے حالات کا خوف دلایا لیکن کافروں نے اُن کی
تکذیب کی اور اُن پر ایمان نہ لائے، انہیں در اصل دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال
دیا۔ کفار کا یہ اقرار اس وقت ہوگا جب کہ اُن کے اعضاء و جوارح ان کے شرک و کفر کی
گواہی دیں گے۔
رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے متعلق
اہم مسئلہ:
رسول صرف انسانوں میں سے ہوتے ہیں جنات سے نہیں۔ چونکہ یہاں جن و انس
دونوں سے خطاب ہےاس لئے تَغْلِیْبًا یعنی جنوں
کو انسانوں کے ماتحت شمار کرتے ہوئے مِنْکُمْ فرمایا گیا۔ بہرحال اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جنات میں نبی آئے،
ہاں جنات کے لئے نبی آئے مگر وہ انسان تھے۔
{ وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى
اَنْفُسِهِمْ:اوروہ خود اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیں گے۔}قیامت کا دن بہت طویل ہوگا اور اس میں حالات بہت مختلف پیش آئیں گے
جب کفار مومنین کے انعام و اکرام اور عزت و منزلت کو دیکھیں گے تو اپنے کفرو شرک سے انکار کر دیں گے اور اس خیال سے کہ شاید مکر جانے
سے کچھ کام بن جائے ، یہ کہیں گے ’’وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ‘‘یعنی خدا کی قسم !ہم مشرک نہ
تھے۔ اس وقت ان کے مونہوں پر مہریں لگادی جائیں گی اور اُن کے اعضاء ان کے کفر و
شرک کی گواہی دیں گے، اسی کی نسبت اس آیت میں ارشاد ہوا۔ ’’ وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى
اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ‘‘(خازن، الانعام،
تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۵۷)
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)