ترجمہ: کنزالایمان
یہ اس لیے کہ تیرا رب بستیوں کو ظلم سے تباہ نہیں کرتا کہ ان کے لوگ بے خبر ہوں۔
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ اس لیے ہے کہ تیرا رب بستیوں کوظلم سے تباہ نہیں کرتا جبکہ ان کے لوگ بے خبر ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ ذٰلِكَ:یہ۔} تفسیرِ خازن، بغوی، تفسیرِ کبیر، بیضاوی،البحر المحیط،تفسیرِ طبری، مدارک،
جلالین، روح البیان، روح المعانی وغیرہ کتبِ تفسیر میں ’’ذٰلِكَ‘‘کا مشارالیہ’’ رسولوں کا بھیجنا اور ان کا کفار کو عذابِ الٰہی سے
ڈرانا ‘‘مذکور ہے۔ تفسیرِ خازن میں اسے جمہور مفسرین کا قول قرار دیا گیا اور اسے ہی اصح کہا گیا۔ تفسیر البحر المحیط میں اس کے علاوہ دو قول اور مذکور ہیں (1)
مشار الیہ پچھلی آیت میں مذکور سوال ہے۔ (2) کفار کا جھٹلانا اور گناہوں میں
مبتلا ہونا۔ ان دونوں اقوال کو صاحب تفسیر البحر المحیط نے درست قرار نہیں دیا
البتہ تفسیر ابو سعود میں اس کا مشار الیہ کفار کا اعتراف و اقرار مذکور ہے اور
صاحب روح المعانی نے پہلے جمہور مفسرین والا قول ذکر کیا اس کے بعد قیل کہہ کے
کفار کے اعتراف والا قول ذکر کیا ہے، تفسیرِ سمرقندی میں بھی یہ قول مذکور ہے۔
{ ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی یہ اس لیے ہے کہ رب تعالیٰ بستیوں کوان کی معصیت اور ظلم کی
وجہ سے تباہ نہیں کرتا جبکہ ان کے لوگ بے خبر ہوں بلکہ عذاب سے پہلے رسول بھیجے
جاتے ہیں جو انہیں ہدایت فرماتے اور ان پر حجت قائم کرتے ہیں ، اس پر بھی وہ سرکشی
کریں تو ہلاک کر دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا قیامت میں حساب کتاب، سوال جواب رب
تعالیٰ کی بے علمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ جیسے دنیا میں بے خبروں پر
عذاب نہیں ایسے ہی آخرت میں بھی نہیں، مجرموں کو بتا کر، اعمال نامہ دکھا کر عذاب
دیا جائے گا۔اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ بد عملی کے بغیر عذاب نہیں بھیجتا ۔ دوسرا یہ کہ نبی
کی تبلیغ پہنچے بغیر کسی کو بد عملیوں کی سزا نہیں مل سکتی۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)