ترجمہ: کنزالایمان
تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا کسی اور کو والی بناؤں وہ اللہ جس نے آسمان و زمین پیدا کیے اور وہ کھلاتا ہے اور کھانے سے پاک ہے تم فرماؤ مجھے حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے گردن رکھوں اور ہرگز شرک والوں میں نہ ہونا۔
تم فرماؤ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
اس دن جس سے عذاب پھیر دیا جائے ضرور اس پر اللہ کی مہر ہوئی اور یہی کھلی کامیابی ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: کیا کسی اور کو اس اللہ کے سوا والی بنالوں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا فرمانے والا ہے؟ اور وہ کھلاتا ہے اور وہ خود کھانے سے پاک ہے۔تم فرماؤ: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے فرمانبرداری کے لئے گردن جھکاؤں اور تو ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔
تم فرماؤ: اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
اس دن جس سے عذاب پھیر دیا گیا توضرور اس پر اللہ نے رحم فرمایا اور یہی کھلی کامیابی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلْ: تم فرماؤ۔} کفارِ عرب نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو کہا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ اپنے ملک والوں کے دین
کی طرف آجائیں اور توحید کا ذکر چھوڑ دیں۔ اس کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل
ہوئی(تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۲۴۵، الجزء السادس) اور فرمایا گیا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انہیں جواب دو کہ کیا
میں اُس اللہعَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور کو اپنا والی بنالوں جو آسمانوں
اور زمین کو پیدا فرمانے والا ہے نیز وہ سب کو کھلاتا ہے اور وہ خود کھانے سے پاک
ہے، ساری مخلوق اُس کی محتاج ہے اوروہ سب سے بے نیاز ہے۔لہٰذا ایسے خالق و مالک، رحیم
و کریم کو میں ہر گز نہیں چھوڑ سکتا۔ اس نے تومجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں سب
سے پہلے فرمانبرداری کے لئے گردن جھکاؤں کیونکہ نبی اپنی اُمت سے دین میں
آگے ہوتے ہیں اور اس نے یہ حکم دیا ہے کہ میں شرک سے پاک رہوں۔
{ مَنْ یُّصْرَفْ عَنْهُ
یَوْمَىٕذٍ:اس دن جس سے عذاب پھیر
دیا گیا۔}اس آیت سے معلوم ہو اکہ
قیامت کے دن عذاب سے بچنا اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے
ہو گا صرف اپنے اعمال اس کے لئے کافی نہیں کیونکہ اعمال سبب ہیں۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)