banner image

Home ur Surah Al Anam ayat 43 Translation Tafsir

اَلْاَ نْعَام

Al Anam

HR Background

فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰـكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(43)فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ(44)

ترجمہ: کنزالایمان تو کیوں نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو گڑگڑائے ہوتے لیکن ان کے تو دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے کام ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے۔ پھر جب انہوں نے بھلا دیا جو نصیحتیں ان کو کی گئی تھیں ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب خوش ہوئے اس پر جو انہیں ملا تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیا اب وہ آس ٹوٹے رہ گئے ۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو گڑگڑاتے لیکن ان کے تودل سخت ہوگئے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردئیے تھے۔ پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیا پس اب وہ مایوس ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا:تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو گڑگڑاتے}اس آیت اور اِس کے بعد والی آیت میں مجموعی طور پر یہ فرمایا گیا کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ گڑگڑاتے تاکہ ہم انہیں توبہ کا موقع دیتے لیکن ان کے تودل سخت ہوگئے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردئیے تھے پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھیں اور وہ کسی طرح نصیحت قبول کرنے کی طرف نہ آئے ، نہ تو پیش آنے والی مصیبتوں سے اور نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں سے، توہم نے ان پر ہر چیز یعنی  صحت و سلامت اور وسعتِ رزق و عیش و غیرہ کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس عیش و عشرت پرخوش ہوگئے اور اپنے آپ کو اس کا مستحق سمجھنے لگے اور قارون کی طرح تکبر کرنے لگے تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیا اور انہیں مبتلائے عذاب کردیا اور اب وہ ہر بھلائی سے مایوس ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی نعمت پر خوش ہونے کا حکم:

            یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت پر خوش ہونا اگر فخر، تکبر اور شیخی کے طور پر ہو تو برا ہے اور کفار کا طریقہ ہے اور اگر شکر کے طور پر ہو تو بہتر ہے اور صالحین کا طریقہ بلکہ حکمِ الٰہی ہے، جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

 وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ  (والضحی: ۱۱)

  ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔

اور ارشاد فرماتا ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا  (یونس: ۵۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے۔

کفر اور گناہوں کے باوجود دنیوی خوشحالی کا اصلی سبب:

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفر اور گناہوں کے باوجود دنیاوی راحتیں ملنا در اصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل اور اس کا غضب و عذاب ہے کہ اس سے انسان اور زیادہ غافل ہو کر گناہ پر دلیر ہو جاتا ہے بلکہ کبھی خیال کرتا ہے کہ گناہ اچھی چیز ہے ورنہ مجھے یہ نعمتیں نہ ملتیں اور یہ کفر ہے ۔

             حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب تم یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے گناہوں کے باوجود ان کی پسند کے مطابق عطا فرما رہاہے تو یہ ان کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِستِدراج اور ڈھیل ہے ،پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

’’ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان:پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیاجو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیا پس اب وہ مایوس ہیں۔‘‘ (مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عقبۃ بن عامر الجہنی، ۶ / ۱۲۲، الحدیث: ۱۷۳۱۳)

            حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’خدا کی قسم ! جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں وسعت عطا فرمائی اور اسے یہ خوف نہ ہو کہ کہیں اس میں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی کوئی خفیہ تدبیر نہ ہو تو بے شک ا س کا عمل ناقص اور اس کی فکر کمزور ہے اور جس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وسعت روک لی اور اس نے یہ گمان نہ کیا کہ وسعت روکنے میں اس کے لئے کوئی بھلائی ہو گی تو بے شک ا س کا عمل ناقص اور ا س کی فکر کمزور ہے۔ (تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۶۵، الجزء السادس۔)

            اس سے ان نام نہاد دانشوروں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے جو کافروں کی ترقی دیکھ کر اسلام سے ہی ناراض ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں کی معیشت کا رونا روتے ہوئے انہیں کفار کی اندھی تقلید کادرس دیتے ہیں اور اسلامی شرم و حیا اور تجارت کے شرعی قوانین کو لات مارنے کا مشورہ دیتے ہیں۔