banner image

Home ur Surah Al Anam ayat 49 Translation Tafsir

اَلْاَ نْعَام

Al Anam

HR Background

وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(48)وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(49)

ترجمہ: کنزالایمان اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے تو جو ایمان لائے اور سنورے ان کو نہ کچھ اندیشہ نہ کچھ غم۔ اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں انہیں عذاب پہنچے گا بدلہ ان کی بے حکمی کا ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ہم رسولوں کواسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہوتے ہیں تو جو ایمان لائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان پرنہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو انہیں ان کی مسلسل نافرمانی کے سبب عذاب پہنچے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ:اور ہم رسولوں کواسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری  دینے والے ہوتے ہیں۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنے رسولوں کو اس لئے نہیں بھیجتے کہ کفار ان سے اپنی من مرضی کے معجزات طلب کرتے پھریں بلکہ اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کو اطاعت پر ثواب کی بشارت اور نافرمانی کرنے پر عذاب کی وعید سنائیں تو جو اپنے کفر کو چھوڑ کر ان پر ایمان لے آیا اور ا س نے اپنے اعمال کی اصلاح کر لی تو ان پر دنیوی یا اخروی عذاب کاکوئی خوف ہے اور نہ وہ ثواب ضائع ہونے کے اندیشے سے غمگین ہوں گے اور جنہوں نے ہماری ان آیتوں کو جھٹلایا جو ہمارے رسولوں نے ان کے سامنے بیان کیں تو انہیں ان کی مسلسل نافرمانی کے سبب عذاب پہنچے گا۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۳۲)

اخروی نجات کے لئے کیا چیز ضروری ہے:

اس سے معلوم ہوا کہ اخروی نجات کے لئے ایمان اور نیک اعمال دونوں ضروری ہیں ،ایمان لانے کے بعد خود کونیک اعمال سے بے نیاز سمجھنے والے اور ایمان قبول کئے بغیر اچھے اعمال کو اپنی نجات کے لئے کافی سمجھنے والے دونوں احمقوں کی دنیاکے باسی ہیں البتہ ان دونوں صورتوں میں صاحب ِ ایمان قطعاً بے ایمان سے بہتر ہے۔

امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جب بندہ ایمان لاتا ہے اور ا س کے بعد اچھے اعمال کرتا اور برائیوں سے باز رہتا ہے نیز امید اور خوف کے درمیان اس طرح مُتَرَدِّد رہتا ہے کہ اسے عمل قبول نہ ہونے کا ڈر ہوتا ہے اور وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ وہ ہمیشہ نیک عمل نہ کر سکے اوراس کا خاتمہ اچھا نہ ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس بات کی امید بھی رکھتا ہے کہ وہ اسے مضبوط او ر ثابت قول پر ثابت قدم رکھے گا،اس کے دین کوموت کی سختیوں سے بچائے گا حتّٰی کہ وہ توحید پر دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور باقی کی زندگی اس کے دل کو خواہشات سے محفوظ رکھے گا تاکہ وہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو ایسا آدمی عقلمند ہے لیکن ا س کے علاوہ لوگ دھوکے میں ہیں اور عنقریب عذاب کو دیکھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون شخص سب سے زیادہ بھٹکا ہو اتھا اور کچھ وقت کے بعد اس کی خبر تم ضرور جان لو گے ،اس وقت وہ کہیں گے

’’ رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ‘‘(سجدہ:۱۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ہمارے رب! ہم نے دیکھا اور سنا تو ہمیں واپس بھیج دے تاکہ نیک کام کریں ، بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں۔  

یعنی ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ جس طرح زمین میں بیج ڈالے اور ہل چلائے بغیر فصل پیدا نہیں ہوتی اسی طرح آخرت میں اجر و ثواب اچھے عمل کے بغیر نہیں ملتا، اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، تو ہمیں واپس بھیج دے ،ہم اچھے عمل کریں گے ، اب ہمیں تیری اس بات کی صداقت معلوم ہوگئی : ’’وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ(۳۹) وَ اَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى‘‘(نجم:۳۹،۴۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور یہ کہ انسان کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی۔اور یہ کہ اس کی کو شش عنقر یب دیکھی جائے گی۔

(لیکن اس وقت ان کی یہ باتیں انہیں کوئی فائدہ نہ دیں گی اور نہ ہی انہیں واپس بھیجا جائے گا)۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الغرور، بیان ذم الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۲-۴۷۳)