Home ≫ ur ≫ Surah Al Anam ≫ ayat 50 ≫ Translation ≫ Tafsir
قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌۚ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّؕ-قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُؕ-اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ(50)
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلْ: تم فرماؤ۔} کفار کا طریقہ
تھاکہ وہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ سے طرح طرح کے سوال
کیا کرتے تھے، کبھی کہتے کہ آپ رسول ہیں تو ہمیں بہت سی دولت اور مال دے
دیجئے تاکہ ہم کبھی محتاج نہ ہوں اور ہمارے لئے پہاڑوں کو سونا کردیجئے ۔کبھی
کہتے کہ گزشتہ اور آئندہ کی خبریں سنائیے اور ہمیں ہمارے مستقبل کی خبر دیجئے کہ
کیا کیا پیش آئے گا؟ تاکہ ہم منافع حاصل کرلیں اور نقصانوں سے بچنے کیلئے پہلے سے
انتظام کرلیں۔کبھی کہتے ہمیں قیامت کا وقت بتادیں کہ کب آئے گی؟ کبھی کہتے
آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیسے رسول ہیں جو کھاتے پیتے بھی ہیں اور نکاح بھی کرتے
ہیں۔اُن کی اِن تمام باتوں کا اِس آیت میں جواب دیا گیا کہ تمہارا یہ کلام نہایت
بے محل اور جاہلانہ ہے کیونکہ جو شخص کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہو اُس سے وہی باتیں
دریافت کی جاسکتی ہیں جو اُس کے دعوے سے تعلق رکھتی ہوں ، غیر متعلق باتوں کا
دریافت کرنا اور اُن کو اُس کے دعوے کے خلاف دلیل وحجت بنانا انتہا درجے کی جہالت
ہے۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرما دیجئے کہ میرا دعویٰ یہ تو نہیں کہ
میرے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خزانے ہیں جو تم مجھ
سے مال و ودلت کا سوال کرو اور اگرمیں تمہاری مرضی کے مطابق تمہارا دعویٰ پورا نہ
کروں تو تم رسالت کے منکر ہوجاؤ اورنہ میرا دعویٰ ذاتی غیب دانی کا ہے کہ اگر میں
تمہیں گزشۃ یا آئندہ کی خبریں نہ بتاؤں تو میری نبوت ماننے میں بہانہ کرسکو ۔ نیز
نہ میں نے فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے کہ کھانا پینا اورنکاح کرنا قابلِ اعتراض ہو
تو جن چیزوں کا دعویٰ ہی نہیں کیا، اُن کا سوال کرنا ہی بے موقع محل ہے اور ایسے
سوال کو پورا کرنا بھی مجھ پر لازم نہیں۔ میرا دعویٰ تونبوت و رسالت کا ہے اور جب
اس پر زبردست دلیلیں اور قوی بُرہانیں قائم ہوچکیں تو غیر متعلق باتیں پیش کرنا
کیا معنی رکھتا ہے۔
نبی
کریم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کا انکار
کرنے والوں کا رد:
اس
سے صاف واضح ہوگیا کہ اس آیتِ کریمہ کوتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے
غیب پر مطلع کئے جانے کی نفی کے لئے سند بنانا ایسا ہی بے محل ہے جیسا کفار کا ان
سوالات کو انکارِ نبوت کی دستاویز بنانا بے محل تھا ۔ مذکورہ بالاکلام کو پڑھنے کے
بعد اب دوبارہ آیت کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے ، اسے پڑھیں اور غور کریں کہ کیا
واقعی آیت میں یہی بیان نہیں کیا گیا ،فرمایا: (اے حبیب!) تم فرمادو
:میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں خود غیب
جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتاہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا
پیروکار ہوں جو میری طرف آتی ہے اور یہی نبی کا کام ہے لہٰذا میں تمہیں وہی دوں گا
جس کی مجھے اجازت ہوگی اور وہی بتاؤں گا جس کی اجازت ہوگی اوروہی کروں گا جس کا
مجھے حکم ملا ہو۔ اس آیت سے حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ عطائی کی
نفی کسی طرح مراد ہی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس صورت میں آیتوں میں تَعارُض کا قائل
ہونا پڑے گا اور وہ بالکل باطل ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۱۷، مدارک، الانعام، تحت
الآیۃ: ۵۰، ص۳۲۲، جمل ، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۳۵۳، ملتقطاً۔)
علامہ
نظامُ الدین حسن بن محمد نیشا پوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ ارشاد
ہوا کہ’’ اے نبی !فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں ‘‘یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے میرے پاس نہیں ( بلکہ یہ فرمایا کہ
میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ
کے خزانے ہیں ) تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ
کے خزانے حضورِ اقدس صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس ہیں مگر حضور پر
نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں سے ان کی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں (اس
لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے ایسا فرمایا) اور وہ خزانے ’’تمام اشیاء کی
حقیقت و ماہیت کا علم‘‘ ہیں ، حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسی کے ملنے کی
دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول
فرمائی۔ پھر فرمایا ’’میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا
علم ہے، ورنہ حضورِا قدس صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو خود فرماتے ہیں ’’مجھے ماکان و
مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب کاعلم
مجھے عطا کیا گیا۔ (تفسیر
نیشاپوری، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۸۳۔)
اس
آیت کے آخر میں فرمایا کہ کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہیں ؟اس سے مراد یہ
ہے کہ کیا مؤمن و کافر اور عالم و جاہل برابر ہیں یعنی ہرگز برابر نہیں ہیں۔