Home ≫ ur ≫ Surah Al Anam ≫ ayat 52 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗؕ-مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(52)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ : اور ان لوگوں کو دور نہ کرو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفار کی ایک جماعت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں آئی، اُنہوں نے دیکھا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اِردگرد غریب صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت حاضر ہے جو ادنیٰ درجہ کے لباس پہنے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ ہمیں ان لوگوں کے پاس بیٹھتے شرم آتی ہے، اگر آپ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں اور آپ کی خدمت میں حاضر رہیں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس بات کو منظور نہ فرمایا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب مجالسۃ الفقرائ، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۴۱۲۷، تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۸۱۔) اور فرمایا گیا کہ اِن مخلص وغریب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اپنی بارگاہ سے دور نہ کرو جو صبح و شام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو اس کی رضا چاہتے ہوئے پکارتے ہیں۔ ان غریب صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا رزق آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نہیں کہ غربت کی وجہ سے انہیں دور کردیا جائے اور نہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذمہ داری ان پر ہے۔ سب کا حساب اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ہے، وہی تمام خلق کو روزی دینے والا ہے اور اس کے سوا کسی کے ذمہ کسی کا حساب نہیں۔
اس آیت کادوسرا معنیٰ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کفار نے غریب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر طعن مراد لیا تھا کہ یہ تو غربت کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں کہ یہاں کچھ روزی روٹی کا انتظام ہوجاتا ہے ، یہ مخلص نہیں ہیں۔ اس پر پہلے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اِخلاص کا بیان فرمایا کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا چاہتے ہوئے دن رات اس کی عبادت کرتے ہیں پھر فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ پر ان کے احوال کی تفتیش لازم نہیں کہ یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مخلص ہیں یا نہیں ؟ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۲، ۴ / ۵۴۲ ملتقطاً)بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کو اپنے فیضِ صحبت سے نوازتے رہیں اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہ ضعیف فقراء جن کا اوپر ذکر ہوا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں قرب پانے کے مستحق ہیں انہیں دور نہ کرنا ہی بجا ہے۔