ترجمہ: کنزالایمان
اور وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ دن میں کماؤ پھر تمہیں دن میں اٹھاتا ہے کہ ٹھہرائی ہوئی میعاد پوری ہو پھر اسی کی طرف پھرنا ہے پھر وہ بتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کماتے ہو اسے جانتا ہے پھر تمہیں دن کے وقت اٹھاتا ہے تاکہ مقررہ مدت پوری ہوجائے پھر اسی کی طرف تمہارا لوٹنا ہے پھر وہ بتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ هُوَ الَّذِیْ
یَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّیْلِ:اور وہی
ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے۔}اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰکے کمالِ علم کابیان ہوا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ
کی کمالِ قدرت کا بیان کیا جا رہاہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہوہی اللہ عَزَّوَجَلَّہے جو رات کے وقت تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے اور تمہاری قوتِ احساس
زائل کر کے تمہیں میت کی طرح کر دیتا ہےجس سے تم پر نیند مُسلَّط ہوجاتی ہے اور تمہارے تَصَرُّفات اپنے حال پر
باقی نہیں رہتے۔ پھر وہ تمہیں دن کے وقت اٹھاتا ہے تاکہ تمہاری زندگی کی مقررہ مدت
پوری ہوجائے اور تمہاری عمر اپنی انتہا کو پہنچے، پھر مرنے کے بعد آخرت میں اسی
کی طرف تمہارا لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان اعمال کی جزا ء دے گاجو کچھ تم دن رات کیا
کرتے تھے۔
یہاں آیت میں پہلے نیند مسلط کرنے اور اس کے بعد بیدار کرنے کابیان
ہوا، اس میں قیامت قائم ہونے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر واضح دلیل
ہے کہ جو رب عَزَّوَجَلَّ ا س چیز پر قادر ہے کہ روز
مرہ سونے کے وقت ایک طرح کی موت تم پر وارِدکرتا ہے جس سے تمہارے حواس اور ان کے
ظاہری افعال جیسے دیکھنا، سننا، بولنا، چلنا پھرنا اور پکڑنا وغیرہ سب مُعَطَّل ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد پھر بیداری کے وقت وہی رب عَزَّوَجَلَّ تمام اعضاء کو ان کے تصرفات عطا فرما دیتا ہے اور وہ
دیکھنا سننا، بولنا اور چلنا پھرنا وغیرہ شروع کر دیتے ہیں تو وہ رب عَزَّوَجَلَّ مخلوق کو ان کی حقیقی موت
کے بعد زندگانی کے تصرفات عطا کر نے پر بھی قادر ہے ۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)