banner image

Home ur Surah Al Anam ayat 61 Translation Tafsir

اَلْاَ نْعَام

Al Anam

HR Background

وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ(61)

ترجمہ: کنزالایمان اور وہی غالب ہے اپنے بندوں پر اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں کسی کو موت آتی ہے ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں اور وہ قصور نہیں کرتے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور وہی اپنے بندوں پرغالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں کسی کو موت آتی ہے توہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ:اور وہی اپنے بندوں پرغالب ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام امور میں ہر طرح سے تصرف کرنے کی قدرت رکھتا ہے، وہی عطا کرتا اور وہی اپنی عطا روکتا ہے، وہی ملاتا اور وہی توڑتا ہے،وہی نفع و نقصان پہنچاتا ہے ،وہی عزت و ذلت دیتا ہے ،وہی زندگی اور موت دیتا ہے، اس کے فیصلے کو رد کرنے والا کوئی نہیں اور اس کے علاوہ اور کوئی جائے پناہ نہیں۔(صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۵۸۸)ایک اور مقام پراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَۚ-وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖؕ-یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ‘‘(یونس:۱۰۷)

 ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سواکوئی تکلیف کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو اس کے فضل کو کوئی رد کرنے والانہیں۔اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے اور وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

{ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً: اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے۔} ان سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بنی آدم کی نیکی او ربدی لکھتے رہتے ہیں ،انہیں کراماً کاتبین کہتے ہیں۔ ہر آدمی کے ساتھ دو فرشتے ہیں ،ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف۔ دائیں طرف کا فرشتہ نیکیاں لکھتا ہے اور بائیں طرف کافرشتہ برائیاں لکھتا ہے۔

گناہ کرنے والے غور کریں :

بندوں کو چاہئے کہ غور کریں اور بدیوں اور گناہوں سے بچیں کیونکہ ہر ایک عمل لکھا جاتا ہے اور روزِ قیامت وہ نامۂ اعمال تمام مخلوق کے سامنے پڑھا جائے گا تو گناہ کتنی رسوائی کا سبب ہوں گے اللہ عَزَّوَجَلَّ پناہ دے۔ اسی کے پیشِ نظر امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے زبان کی حفاظت کے متعلق فرمایا: حضرت عطا بن ا بی رباح رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : تم سے پہلے لوگ فضول کلام کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ لوگ کتابُ اللہ، سنت ِ رسول، نیکی کی دعوت دینے، برائی سے منع کرنے اور اپنی ایسی حاجت جس کے سوا کوئی چارہ ہی نہ ہو کے علاوہ کلام کو فضول شمار کرتے تھے۔ کیا تم اس بات کا انکار کرتے ہو کہ تمہارے دائیں بائیں دو محافظ فرشتے کراماً کاتبین بیٹھے ہیں

’’ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ ‘‘(ق:۱۸)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔

کیا تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی کہ تمہارا نامۂ اعمال جب کھولا جائے گا جو دن بھرصادر ہونے والی باتوں سے بھرا ہو گا، اور ان میں زیادہ تر وہ باتیں ہوں گی جن کا نہ تمہارے دین سے کوئی تعلق ہو گا نہ دنیا سے۔ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میرے ساتھ کوئی شخص بات کرتا ہے ،اسے جواب دینا شدید پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے زیادہ میری خواہش ہوتی ہے لیکن میں اس خوف سے اسے جواب نہیں دیتا کہ کہیں یہ فضول کلام نہ ہو جائے(احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، بیان عظیم خطر اللسان وفضیلۃ الصمت، الآفۃ الثانیۃ فضول الکلام، ۳ / ۱۴۱)۔[1]

{ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا: ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں۔} اِن فرشتوں سے مراد یا تو تنہا حضرت ملکُ الموت عَلَیْہِ السَّلَام ہیں،اس صورت میں جمع کالفظ (رُسُل) تعظیم کے لئے ہے یا حضرت ملکُ الموت عَلَیْہِ السَّلَام اور وہ فرشتے مراد ہیں جو ان کے مددگار ہیں۔ جب کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو حضرت ملکُ الموت عَلَیْہِ السَّلَام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے مددگاروں کو اس کی روح قبض کرنے کا حکم دیتے ہیں ، جب روح حلق تک پہنچتی ہے تو خود قبض فرماتے ہیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۲۳)اور ان سب فرشتوں کی شان میں فرمایا کہ یہ کوئی کوتاہی نہیں کرتے یعنی تعمیلِ حکم میں اُن سے کوتاہی واقع نہیں ہوتی اور ان کے عمل میں سستی اور تاخیر راہ نہیں پاتی بلکہ وہ اپنے فرائض ٹھیک وقت پر ادا کرتے ہیں۔


[1] زبان کی حفاظت سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’جنت کی دو چابیاں‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔