ترجمہ: کنزالایمان
تم فرماؤ وہ کون ہے جو تمہیں نجات دیتا ہے جنگل اور دریا کی آفتوں سے جسے پکارتے ہو گِڑگِڑا کر اور آہستہ کہ اگر وہ ہمیں اس سے بچاوے تو ہم ضرور احسان مانیں گے ۔
تم فرماؤ اللہ تمہیں نجات دیتا ہے اس سے اور ہر بے چینی سے پھر تم شریک ٹھہراتے ہو ۔
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ ،وہ کون ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر کی ہولناکیوں سے نجات دیتا ہے ؟ تم اسے گڑگڑا کر اور پوشیدہ طور پر پکارتے ہو (اورتم کہتے ہو کہ) اگر وہ ہمیں اس سے نجات دیدے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے۔
تم فرماؤ، اللہ تمہیں ان ہولناکیوں سے اور ہر بے چینی سے نجات دیتا ہے پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت میں کفار کو ان کے شرک پرتنبیہ کی گئی ہے کیونکہ خشکی اور تری کے
سفروں میں جب وہ مبتلائے آفات ہو کر پریشان ہوتے ہیں اور انہیں ایسی
شدتوں اور ہولناکیوں سے واسطہ پڑتا ہے جن سے دل کانپ جاتے ہیں اور خطرات قلوب کو مضطرب اور بے چین کردیتے ہیں اس وقت
بت پرست بھی بتوں کو بھول جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی سےدُعا کرتا ہے اور اُسی کی جناب میں تَضَرُّع وزاری
کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس مصیبت سے اگر تونے نجات دی تو میں شکر گزارہوں گا اور تیرا حقِ نعمت بجالاؤں گا لیکن ہوتا کیا
ہے اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اگلی آیت میں بیان فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں بتاؤ کہ اللہعَزَّوَجَلَّ تمہیں ان ہولناکیوں سے اور اس کے علاوہ زندگی کی ہر بے چینی سے نجات
دیتا ہے لیکن پھر بھی تم لوگ شرک کرتے ہو اور بجائے شکر گزاری کے ایسی بڑی ناشکری
کرتے ہو اور یہ جانتے ہوئے کہ بت نکمے ہیں ،کسی کام کے نہیں پھر اُنہیں اللہعَزَّوَجَلَّ کا شریک کرتے ہو ، یہ کتنی بڑی گمراہی ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم
ہوا کہ دنیا میں کفار کی بعض دعائیں قبول ہو جاتی ہیں کہ کفار جو مصیبت میں پھنس
کر نجات کی دعا کرتے تھے، رب عَزَّوَجَلَّ انہیں نجات دے دیتا تھا، شیطان نے اپنی درازیٔ عمر کی دعا کی جو قبول
ہوئی۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)