Home ≫ ur ≫ Surah Al Anam ≫ ayat 70 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ ذَكِّرْ بِهٖۤ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌۢ بِمَا كَسَبَتْ ﳓ لَیْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌۚ-وَ اِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْاۚ-لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ(70)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا:اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جنہوں نے اپنا دین ہنسی مذاق اور کھیل بنا لیا۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں سے معاشرتی تعلقات اور میل جول چھوڑ دیں جنہوں نے اپنے دین کو ہنسی مذاق اور کھیل بنا لیا اوراس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا اور اس کی محبت ان کے دلوں پر غالب آ گئی اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ قرآن کے ذریعے انہیں نصیحت کریں تاکہ کوئی جان اپنے دنیوی برے اعمال کی وجہ سے آخرت میں ثواب سے محروم اورہلاکت کے سپرد نہ کردی جائے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سوا نہ اس ہلاک ہونے والے کا کوئی مددگار ہو گا اورنہ ہی سفارشی اور اگر وہ پکڑے جانے والا شخص اپنے عذاب سے چھٹکارے کے بدلے میں سارے معاوضے دیدے تو وہ اس سے نہ لیے جائیں گے ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے اعمال کی وجہ سے ہلاکت کے سپرد کردیا گیا اور ان کے لئے ان کے کفر کے سبب کھولتے ہوئے پانی کا مشروب اور دردناک عذاب ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۵-۲۶)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں ’’ یاد رکھیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرنا اور ان کا مذاق اڑانا کفر ہے اور کفر کی سزا جہنم کا دائمی دردناک عذاب ہے اسی طرح کسی مسلمان کا گناہوں پر اصرار کرنا بھی ایسا عمل ہے جس سے اس کی موت کفر کی حالت میں ہو سکتی ہے۔ حضرت ابو اسحاق فزاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ایک شخص اکثر ہمارے پاس بیٹھا کرتا اور اپنا آدھا چہرہ ڈھانپ کر رکھتا تھا، ایک دن میں نے اس سے کہا کہ تم ہمارے پاس بکثرت بیٹھتے ہو اوراپنا آدھا چہرہ ڈھانپ کر رکھتے ہو ،مجھے ا س کی وجہ بتاؤ۔ اس نے کہا: میں کفن چور تھا، ایک دن ایک عورت کو دفن کیا گیا تو میں اس کی قبر پر آیا، جب میں نے ا س کی قبر کھود کر اس کے کفن کو کھینچا تو ا س نے ہاتھ اٹھا کر میرے چہرے پر تھپڑ مار دیا۔ پھر اس شخص نے اپناچہرہ دکھایا تو اس پر پانچ انگلیوں کے نشان تھے۔ میں نے اس سے کہا: اس کے بعد کیا ہوا؟ اس نے کہا :پھر میں نے ا س کا کفن چھوڑ دیا اور قبر بند کر کے اس پر مٹی ڈال دی اور میں نے دل میں پختہ ارادہ کر لیا کہ جب تک زندہ رہوں گا کسی کی قبر نہیں کھودوں گا۔ حضرت ابو اسحاق فزاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں نے یہ واقعہ امام اوزاعی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لکھ کر بھیجا تو انہوں نے مجھے لکھا کہ اس سے پوچھو: جن مسلمانوں کا انتقال ہوا کیاان کا چہرہ قبلے کی طرف تھا ؟میں نے اس کے بارے میں اُ س کفن چور سے پوچھا تو اس نے جواب دیا ’’ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا چہرہ قبلے سے پھرا ہوا تھا۔ میں نے اس کا جواب امام اوزاعی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لکھ کر بھیجا تو انہوں نے مجھے تحریر بھیجی جس پر تین مرتبہ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ‘‘ لکھا ہوا تھا اور ساتھ میں یہ تحریر تھا ’’جس کا چہرہ قبلے سے پھرا ہو اتھا اس کی موت دینِ اسلام پر نہیں ہوئی ،تم اللہ تعالیٰ سے اس کے عفو، مغفرت اور اس کی رضا طلب کرو۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۵۱)