ترجمہ: کنزالایمان
اور یہ ہے برکت والی کتاب کہ ہم نے اُتاری تصدیق فرماتی ان کتابوں کی جو آگے تھیں اور اس لیے کہ تم ڈر سناؤ سب بستیوں کے سردار کو اور جو کوئی سارے جہان میں اس کے گرد ہیں اور وہ جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ،پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس لئے (اتری) تاکہ تم اس کے ذریعے مرکزی شہر اور اس کے اردگرد والوں کو ڈر سناؤ اور جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں وہی اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ هٰذَا كِتٰبٌ: اور یہ کتاب ہے۔}یہاں قرآنِ پاک کے بارے میں فرمایا کہ یہقرآنِ پاک برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل
فرمایا ہے ۔ یہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور ہم نے اسے اس لئے نازل
فرمایا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے ذریعے مرکزی شہر مکہ مکرمہ اور اس کے اردگرد والوں کواللہعَزَّوَجَلَّ کے عذاب کی خبریں دو۔
{ وَ الَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ:اور جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں۔}ارشاد
فرمایا کہ جو لوگ آخرت اور اس میں موجود انواع و اقسام کے عذابات پر ایمان لاتے
ہیں وہی اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ وہ برے انجام سے ڈرتے ہیں اور یہی خوف
انہیں غورو فکر کرنے پر ابھارتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ ا س پر ایمان لے آتے ہیں
اور قرآنِ مجید پر ایمان لانے والے اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۶۴)
یہاں نماز کو بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ ایمان کے بعد سب سے اعلیٰ
عبادت ہے اور جب بندہ تمام ارکان و شرائط کے ساتھ اس کی
پابندی کرتا ہے تو دیگر عبادات اور طاعات کی پابندی کرنا بھی شروع کر دیتا ہے۔ا س
سے معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا ایک تقاضا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں
ان کے تمام ارکان و شرائط کے ساتھ پابندی سے ادا کی جائیں اور ان کی ادائیگی میں
کسی طرح کی سستی اور کاہلی سے کام نہ لیا جائے۔اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس تقاضے پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ [1]
[1]…نماز کے ارکان و شرائط اور اس سے متعلق دیگر معلومات حاصل کرنے کے لئے امیرِ
اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب’’نماز کے احکام‘‘ اور ’’اسلامی بہنوں کی نماز‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ
فرمائیں۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)