Home ≫ ur ≫ Surah Al Anam ≫ ayat 93 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُؕ-وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَاسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْۚ-اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ(93)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔}یہ آیت مُسَیْلِمَہ کذّاب کے بارے میں نازل ہوئی جس نے یمن کے علاقے یمامہ میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ قبیلہ بنی حنیفہ کے چند لوگ اس کے فریب میں آگئے تھے ۔یہ کذاب ،سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ خلافت میں حضرت وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ سے قتل ہوا۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۷) اس کے بارے میں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے یا نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے اور کہے کہ میری طرف وحی کی گئی حالانکہ اس کی طرف کسی شے کی وحی نہیں بھیجی گئی ۔یہ آیت صراحت کے ساتھ مرزا قادیانی کا بھی رد کرتی ہے کیونکہ وہ بھی اس کا مدعی تھا کہ میری طرف وحی نازل کی جاتی ہے۔ آج کل قادیانی لوگوں کو مختلف طریقوں سے دھوکہ دیتے ہیں۔ کچھ یہ کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد نے نبوت کا نہیں بلکہ مجدد ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور ہم اسے صرف مجدد مانتے ہیں جبکہ بعض کہتے ہیں کہ مرزا نے مطلق نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت کا دعویٰ کیا تھاحالانکہ مرزا قادیانی کی کتابوں میں بیسیوں جگہ مُطلق نبوت و رسالت کا دعویٰ موجود ہے اور جو ظلی و بروزی نبوت کا دعویٰ ہے وہ بھی نبوت ہی کا دعویٰ ہے اور وہ بھی قطعاً کفر ہے، نیزمرزا کے منکروں کوکافر اور ماننے والوں کو صحابی اور بیویوں کو ازواجِ مطہرات کہنا ان کی کتابوں میں عام ہے لہٰذا کسی بھی مسلمان کو ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔
{ وَمَنْ قَالَ:اور جس نے کہا۔} آیت کا یہ حصہ عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوا جو کاتب ِ وحی تھا۔ جب آیت ’’ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ ‘‘ نازل ہوئی ، اس نے اس کو لکھا اور آخر تک پہنچتے پہنچتے انسانی پیدائش کی تفصیل پر مطلع ہو کر متعجب ہوا اور اس حالت میں آیت کا آخر ی حصہ ’’ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ‘‘ بے اختیار اس کی زبان پر جاری ہوگیا ۔ اس پر اس کو یہ گھمنڈ ہوا کہ مجھ پر وحی آنے لگی اور مرتد ہوگیا، یہ نہ سمجھا کہ نورِ وحی اور قوت و حسنِ کلام کی وجہ سے آیت کا آخری کلمہ خود زبان پر آگیا ہے اور اِس میں اُس کی قابلیت کا کوئی دخل نہ تھا۔ زورِ کلام بعض اوقات خود اپنا آخر بتادیا کرتا ہے جیسے کبھی کوئی شاعر نفیس مضمون پڑھے وہ مضمون خود قافیہ بتا دیتا ہے اور سننے والے شاعر سے پہلے قافیہ پڑھ دیتے ہیں ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہر گز ویسا شعر کہنے پر قادر نہیں تو قافیہ بتانا ان کی قابلیت نہیں ، کلام کی قوت ہے اور یہاں تو نورِوحی اور نورِ نبی سے سینہ میں روشنی آتی تھی چنانچہ مجلس شریف سے جدا ہونے اور مرتد ہوجانے کے بعد پھر وہ ایک جملہ بھی ایسا بنانے پر قادر نہ ہوا جو نظمِ قرآنی سے ملتا جلتا ہو۔ آخر کار زمانہ ِاقدس ہی میں فتحِ مکہ سے پہلے پھر اسلام سے مشرف ہوگیا۔ (تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۳، ۴ / ۳۰، الجزء السابع)اس کے بارے میں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو کہے : عنقریب میں بھی ایسی ہی کتاب اُتار دوں گا جیسی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نازل کی ہے۔
{ وَ لَوْ تَرٰى : اور اگر تم دیکھو۔} یہاں سے کافروں کی موت کے وقت کے حالات بیان ہوئے ہیں ، فرمایا کہ اگر تم کافروں کی حالت دیکھو تو بڑی خوفناک حالت دیکھو گے جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے ارواح قبض کرنے کے لئے جھڑکتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو۔ آج تمہیں اس کے بدلے میں ذلت کا عذاب دیا جائے گاجو تم نبوت اور وحی کے جھوٹے دعوے کرکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے شریک اور بیوی بچے بتا کر اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ناحق باتیں کہتے تھے۔
اس آیت میں موت کے وقت کافر کے حالات بیان ہوئے اور حدیثِ پاک میں مسلمان اور کافر دونوں کی موت کے حالات بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب مسلمان کی موت قریب ہوتی ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑے لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں :اے روح! تو راضی خوشی حالت میں اور ا س حال میں نکل کہ اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہے،تُو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے رزق سے اپنے پروردگار کی طرف نکل جو ناراض نہیں ہے۔پھر روح عمدہ خوشبودار مشک کی طرح خارج ہوتی ہے اور فرشتے اسے اسی وقت اٹھا کر آسمان کے دروازے پر لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں :یہ کتنی اچھی خوشبو ہے جو زمین سے آئی ہے۔ اس کے بعد اُسے مسلمانوں کی روحوں کے پاس لے کر آتے ہیں۔وہ روحیں اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتی ہیں جو کسی گئے ہوئے شخص کے واپس آنے پر خوش ہوتا ہے اور وہ روحیں ا س سے دریافت کرتی ہیں : دنیا میں پیچھے رہنے والا فلاں شخص کیسے کام کرتا ہے؟ پھر روحیں کہتی ہیں :ابھی ٹھہروا ور اسے چھوڑ دو، یہ دنیا کے غم میں ہے۔ یہ روح کہتی ہے: کیا وہ شخص تمہارے پاس نہیں تھا؟ (یعنی دنیا سے تو وہ آچکا تو کیا تمہارے پاس نہیں ہے؟) روحیں کہتی ہیں :(اگر وہ دنیا سے آچکا اور ہمارے پاس نہیں ہے تو پھر) وہ جہنم میں گیا ہو گا۔اور جب کافر کی موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے بوریے کا ایک ٹکڑا ڈالے آ کر کہتے ہیں : اے روح!تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرف نکل کیونکہ تو اللہ تعالیٰ سے ناراض ہے اوراللہ تعالیٰ تجھ سے ناراض ہے، اس کے بعد وہ جلے ہوئے بدبودار مردار کی طرح نکلتی ہے حتّٰی کہ فرشتے اسے زمین کے دروازے پر لاتے ہیں تو فرشتے پوچھتے ہیں :یہ کیا بدبو ہے، یہاں تک کہ اسے کافروں کی روحوں میں لے جاتے ہیں۔ (سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب ما یلقی بہ المؤمن من الکرامۃ۔۔۔ الخ، ص۳۱۳، الحدیث: ۱۸۳۰)