ترجمہ: کنزالایمان
تاریکی چاک کرکے صبح نکالنے والا اور اس نے رات کو چین بنایا اور سورج اور چاند کو حساب یہ سادھا ہے زبردست جاننے والے کا۔
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (وہ) تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والا (ہے) اور اس نے رات کوآرام (کا ذریعہ) بنایا اور اس نے سورج اور چاند کو (اوقات کے) حساب (کا ذریعہ بنایا) یہ زبردست، علم والے کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ: تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والا۔}اللہ عَزَّوَجَلَّاپنی مزید عظمتیں بیان فرماتا ہے چنانچہ فرمایا کہ وہ تاریکی کو چاک
کرکے صبح نکالنے والا ہے چنانچہ صبح کے وقت مشرق کی طرف روشنی دھاگے کی طرح نمودار
ہوتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خط نے تاریکی چاک کردی، یہ بھی اس کی قدرت
ہے۔ نیز اس نے رات کوآرام کا ذریعہ بنایا کہ مخلوق اس میں چین پاتی ہے اور دن کی
تھکاوٹ اور ماندگی کو استراحت سے دور کرتی ہے اور شب بیدار زاہد تنہائی میں اپنے
رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت سے چین پاتے
ہیں۔نیزاس نے سورج اور چاند کو اوقات کے
حسا ب کا ذریعہ بنایا کہ اُن کے دورے اور سیر سے عبادات و معاملات کے اوقات معلوم
ہوتے ہیں مثلاً چاند سے قَمری مہینے اور سورج سے شمسی مہینے بنتے ہیں۔ چاند سے
اسلامی عبادات اور سورج سے موسموں اور نمازوں کا حساب لگتا ہے غرضیکہ ان میں عجیب
قدرت کے کرشمے ہیں۔ یہ سب زبردست، علم والے کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔ آیت سے
معلوم ہوا کہ علمِ ریاضی ، علمِ نَباتات، علمِ فلکیات اور علم الحیوانات بھی بہت
اعلیٰ علوم ہیں کہ ان سے رب تعالیٰ کی قدرت کاملہ ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آسمانی اور زمینی چیزوں
کو اپنی قدرت کا نمونہ بنایاہے۔
حضرت مسلم بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ یہ دعا مانگا کرتے تھے’’اَللّٰہُمَّفَالِقَ الْاِصْبَاحِوَجَاعِلَ اللَّیْلِ سَکَنًا
وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا، اِقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَاغْنِنِی مِنَ
الْفَقْرِ وََمَتِّعْنِی بِسَمْعِیْ وَبَصَرِیْ وَقُوَّتِیْ فِیْ سَبِیْلِکَ‘‘اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، (اے) تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والے اور رات کوآرام (کا ذریعہ) بنانے والے اور سورج و چاند
کو (اوقات کے) حساب (کا ذریعہ بنانے والے ) میرے قرض کو پورا فرما دے اور محتاجی سے مجھے غنا عطا فرما اور مجھے
میری سماعت، بصار ت اور قوت سے اپنی راہ میں فائدہ اٹھانے والا بنا۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، من کان یدعو بالغنی، ۷ / ۲۷، الحدیث: ۳)
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)