ترجمہ: کنزالایمان
بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو چیر نے والا ہے زندہ کو مردہ سے نکالے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا یہ ہے اللہ تم کہاں اوندھے جاتے ہو۔
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو چیر نے والا ہے، زندہ کو مردہ سے نکالنے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے، یہ اللہ ہے تو تم کہاں پھرے جاتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{ فَالِقُ الْحَبِّ : دانے کو چیرنے والا۔}توحیدو نبوت کے بیان کے
بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے کمالِ
قدرت ، علم اور حکمت کے دلائل ذکر فرمائے کیونکہ مقصود ِاعظم اللہعَزَّوَجَلَّ اور اس کی تمام صفات و
افعال کی معرفت ہے اور یہ جاننا ہے کہ وہی تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے اور جو
ایسا ہو وہی مستحقِ عبادت ہوسکتا ہے نہ کہ وہ بت جنہیں مشرکین پوجتے ہیں۔ خشک دانہ
اور گٹھلی کو چیر کر ان سے سبزہ اور درخت پیدا کرنا اور ایسی سنگلاخ زمینوں میں ان
کے نرم ریشوں کو جاری کردینا جہاں آہنی میخ بھی کام نہ کرسکے اس کی قدرت کے کیسے
عجائبات ہیں۔ وہی اللہ کریم دانے اور گٹھلی کو
چیر کر سبزہ اور درخت بنادیتا ہے اور زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے جیسے جاندار سبزہ
کو بے جان دانے اور گٹھلی سے اور انسان و حیوان کو نطفہ سے اور پرندے کو انڈے سے۔
یونہی وہی رب ِ عظیم عَزَّوَجَلَّ مردہ کو زندہ سے نکالنے
والاہے جیسے جاندار درخت سے بے جان گٹھلی اور دانہ کو اور انسان و حیوان سے
نطفہ کو اور پرندے سے انڈے کو ۔یہ سب اس کے عجائبِ قدرت و حکمت ہیں تو اے کافرو!
یہ ہے اللہعَزَّوَجَلَّ، توتم کہاں اوندھے جاتے ہو؟ اور ایسے دلائل و
براہین قائم ہونے کے بعد کیوں ایمان نہیں لاتے اور موت کے بعد اٹھنے کا یقین نہیں
کرتے ؟ اور غور کرو کہ جو بے جان نطفہ سے جاندار حیوان کوپیدا کرتا ہے اس کی قدرت
سے مردہ کو زندہ کرنا کیا بعید ہے۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)