banner image

Home ur Surah Al Anbiya ayat 18 Translation Tafsir

اَلْاَ نْبِيَآء

Surah Al Anbiya

HR Background

لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ ﳓ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ(17)بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌؕ-وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ(18)

ترجمہ: کنزالایمان اگر ہم کوئی بہلاوا اختیار کرنا چاہتے تو اپنے پاس سے اختیار کرتے اگر ہمیں کرنا ہوتا۔ بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں تو وہ اس کا بھیجہ نکال دیتا ہے تو جبھی وہ مٹ کر رہ جاتا ہے اور تمہاری خرابی ہے ان باتوں سے جو بناتے ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اگر ہم کوئی کھیل ہی اختیار کرنا چاہتے تو اپنے پاس سے ہی اختیار کرلیتے اگر ہمیں کرنا ہوتا۔ بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینکتے ہیں تو وہ اس کادماغ توڑ دیتاہے تو جبھی وہ مٹ کر رہ جاتا ہے اور تمہارے لئے بربادی ہے ان باتوں سے جو تم کرتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا:اگر ہم کوئی کھیل ہی اختیار کرنا چاہتے ۔}یعنی اگر ہم آسمان و زمین اور ان کے درمیان موجود اَشیاء کو کسی حکمت کے بغیر بے مقصد بنا کر کسی ایسی چیز کو اختیار کرنا چاہتے جس سے کھیلا جائے تو ہم ان کی بجائے اپنے پاس سے ہی کسی چیز کو اختیار کر لیتے، لیکن یہ اُلوہِیّت کی شان اور حکمت کے منافی ہونے کی وجہ سے ہمارے حق میں  محال ہے لہٰذا ہمارا کھیل کے لئے کسی چیز کو اختیار کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے۔

            بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  کھیل سے مراد بیوی اور بیٹا ہے اور یہ آیت ان عیسائیوں  کے رد میں  ہے جو حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکو مَعَاذَ اللہ،  اللہ تعالیٰ کی بیوی اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں  ،چنانچہ اس قول کے مطابق آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر  اللہ تعالیٰ بیوی اور بیٹا اختیار کرنا چاہتا تو وہ انسانوں  میں  سے نہ کرتا بلکہ اپنے پاس موجود حورِ عِین اور فرشتوں  میں  سے کسی کو بیوی اور بیٹا بنا لیتا، یونہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکی طرح انہیں  لوگوں  کے پاس نہ رکھتا بلکہ اپنے پاس رکھتا کیونکہ بیوی اور بیٹے والے بیوی اوربیٹے اپنے پاس رکھتے ہیں ،لیکن چونکہ  اللہ تعالیٰ بیوی اور اولاد سے پاک ہے، نہ یہ اس کی شان کے لائق ہے اور نہ اس کے حق میں  یہ کسی طرح ممکن ہے، اس لئے  اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا ہی نہیں ۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۵۰۹، تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۸ / ۱۲۵، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۲۷۳، ملتقطاً)

{بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ:بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینکتے ہیں ۔}یعنی ہماری شان یہ نہیں  کہ ہم کھیل کے لئے کوئی چیز اختیار کریں  بلکہ ہماری شان تو یہ ہے کہ ہم حق کو باطل پر غالب کر تے ہیں  تو وہ باطل کوپورا مٹادیتا ہے اوراسی وقت باطل مکمل طور پر ختم ہو کر رہ جاتا ہے اور اے کافرو! تمہارے لئے اُن باتوں  کی وجہ سے بربادی ہے جو تم  اللہ تعالیٰ کی شان میں  کرتے ہو اور اس کے لئے بیوی اور بچہ ٹھہراتے ہو۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۵۰۹)