Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 87 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(87)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ ذَا النُّوْنِ:اور ذوالنون کو (یاد کرو)۔} یہاں سے حضرت یونس بن متّٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگوں نے آپ کی دعوت قبول نہ کی اور نہ ہی نصیحت مانی بلکہ وہ اپنے کفر پر ہی قائم رہے تھے، تو حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام غضبناک ہو کر اپنی قوم کے علاقے سے تشریف لے گئے اور آپ نے یہ گمان کیا کہ یہ ہجرت آپ کے لئے جائز ہے کیونکہ اس کا سبب صرف کفر اور کافروں کے ساتھ بغض اور اللہ تعالیٰ کے لئے غضب کرنا ہے، لیکن آپ نے اس ہجرت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار نہ کیا تھا جس کی وجہ سےاللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا، وہاں کئی قسم کی تاریکیاں تھیں جیسے دریا کی تاریکی ، رات کی تاریکی اور مچھلی کے پیٹ کی تاریکی ، ان اندھیروں میں حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے اس طرح دعا کی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور تو ہرعیب سے پاک ہے، بیشک مجھ سے بے جا ہوا کہ میں اپنی قوم سے تیرا اِذن اور اجازت پانے سے پہلے ہی جدا ہو گیا۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۷۲۴)
مقبول دعائیہ کلمات:
حضرت سعدرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں جب دعا مانگی تو یہ کلمات کہے’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ جو مسلمان ان کلمات کے ساتھ کسی مقصد کے لئے دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۱-باب، ۵ / ۳۰۲، الحدیث: ۳۵۱۶)
حضرت سعدبن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں خبر نہ دوں کہ جب تم میں سے کسی شخص پر کوئی مصیبت یا دنیا کی بلاؤں میں سے کوئی بلا نازل ہو اور وہ اس کے ذریعے دعا کرے تو ا س کی مصیبت و بلا دور ہوجائے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سےعرض کی گئی :کیوں نہیں !ارشاد فرمایا ’’(وہ چیز) حضرت یونس کی دعا ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ ہے۔(مستدرک،کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل۔۔۔الخ،من دعا بدعوۃ ذی النون استجاب اللہ لہ،۲ / ۱۸۳،الحدیث:۱۹۰۷)
حضرت سعد بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو مسلمان اپنی بیماری کی حالت میں چالیس مرتبہ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ کے ساتھ دعا مانگے ، پھر وہ اس مرض میں فوت ہوجائے تواسے شہید کا اجر دیا جائے اور اگر تندرست ہوگیا تو اس کے تمام گناہ بخشے جا چکے ہوں گے۔( مستدرک ، کتاب الدعاء و التکبیر و التہلیل ۔۔۔ الخ ، ایّما مسلم دعا بدعوۃ یونس علیہ السلام ۔۔۔ الخ ، ۲ / ۱۸۳ ، الحدیث: ۱۹۰۸)
{فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْهِ:تواس نے گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جس شخص نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ عاجز ہے وہ کافر ہے، اور یہ ایسی بات ہے کہ کسی عام مومن کی طرف بھی اس کی نسبت کرنا جائز نہیں تو انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف یہ بات منسوب کرنا کس طرح جائز ہو گا (کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز گمان کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس آیت کا یہ معنی ہر گز نہیں کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں پکڑنے پر قادر نہیں بلکہ ) اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان پر تنگی نہیں فرمائے گا۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۷، ۸ / ۱۸۰)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علاوہ دیگر معتبر مفسرین نے بھی اس آیت کا یہ معنی بیان کیا ہے ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی اسی معنی کو اختیار کیا ہے اور ہم نے بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور دیگر معتبر مفسرین کی پیروی کرتے ہوئے اس آیت میں لفظ ’’لَنْ نَّقْدِرَ‘‘کا ترجمہ’’ ہم تنگی نہ کریں گے‘‘کیا ہے۔