Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 12 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓىٕكَةِ اَنِّیْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍﭤ(12)
تفسیر: صراط الجنان
{اَنِّیْ مَعَكُمْ:میں تمہارے ساتھ ہوں۔} آیت کے اس حصے کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جب فرشتے مسلمانوں کی مدد کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہوں تم ان کی مدد کرو اور انہیں ثابت قدم رکھو۔ فرشتوں کے ثابت قدم رکھنے کا معنی یہ ہے کہ فرشتوں نے سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمائے گا اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو یہ خبر دے دی( جس سے مسلمانوں کے دل مطمئن ہو گئے اور وہ اس جنگ میں ثابت قدم رہے۔) دوسری تفسیر زیادہ قوی ہے کیونکہ اس کلام سے مقصود خوف زائل کرنا ہے کیونکہ فرشتے کفار سے نہیں ڈرتے محض مسلمان خوفزدہ تھے۔(تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۴۶۳)
{فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ:تو تم کافروں کی گردنوں کے اوپر مارو۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور ایک قول یہ ہے کہ خطاب فرشتوں سے ہے۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۱۹۷)
جنگِ بدر میں فرشتوں نے لڑائی میں باقاعدہ حصہ لیا تھا:
مفسرین کی ایک تعداد کے مطابق جنگ ِ بدر میں فرشتوں نے باقاعدہ لڑائی میں حصہ لیا تھا ،یہاں ہم دو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے بیانات تحریر کرتے ہیں جن سے مفسرین کے ا س مَوقف کی تائید ہوتی ہے۔چنانچہ
حضرت ابو داؤد مازنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے تھے ،فرماتے ہیں کہ ’’میں مشرک کی گردن مارنے کے لئے اس کے درپے ہوا لیکن اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا تو میں نے جان لیا کہ اسے کسی اور نے قتل کیا ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی داود المازنی رضی اللہ عنہ، ۹ / ۲۰۲، الحدیث: ۲۳۸۳۹)
حضرت سہل بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ غزوۂ بدر کے دن ہم میں سے کوئی تلوار سے مشرک کی طرف اشارہ کرتا تھا تو اس کی تلوار پہنچنے سے پہلے ہی مشرک کا سر جسم سے جدا ہو کر گر جاتا تھا۔ (معرفۃ الصحابہ، سہل بن حنیف بن واہب بن العکیم، ۲ / ۴۴۱، رقم: ۳۲۹۹)
نوٹ:یاد رہے کہ غزوہ ٔبدر کا واقعہ 2 ھ 17 رمضانُ المبارک، بروز جمعہ صبح کے وقت پیش آیا تھا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۱۸۴)