banner image

Home ur Surah Al Anfal ayat 11 Translation Tafsir

اَلْاَ نْفَال

Al Anfal

HR Background

اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَﭤ(11)

ترجمہ: کنزالایمان جب اس نے تمہیں اونگھ سے گھیر دیا تو اس کی طرف سے چین تھی اور آسمان سے تم پر پانی اتارا کہ تمہیں اس سے ستھرا کردے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرما وے اور تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے اور اس سے تمہارے قدم جمادے۔ ترجمہ: کنزالعرفان یاد کرو جب اس نے اپنی طرف سے تمہاری تسکین کے لئے تم پر اونگھ ڈال دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے وہ تمہیں پاک کردے اور تم سے شیطان کی ناپاکی کو دور کردے اور تمہارے دلو ں کو مضبوط کردے اور اس سے تمہارے قدم جمادے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ:یاد کروجب اس نے تم پر اونگھ ڈال دی۔} حضرت عبداللہ بن مسعود  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غنودگی اگر جنگ میں ہو تو امن ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور نماز میں ہو تو شیطان کی طرف سے ہے۔ جنگ میں غنودگی کا امن ہونا اس سے ظاہر ہے کہ جسے جان کا اندیشہ ہواُسے نیند اور اونگھ نہیں آتی، وہ خطرے اور اِضطراب میں رہتا ہے ۔ شدید خوف کے وقت غنودگی آنا حصولِ امن اور زوالِ خوف کی دلیل ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ’’ جب مسلمانوں کو دشمنوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت سے جانوں کا خوف ہوا اور بہت زیادہ پیاس لگی تو ان پر غنودگی ڈال دی گئی جس سے انہیں راحت حاصل ہوئی ، تھکان اور پیاس دور ہوئی اور وہ دشمن سے جنگ کرنے پر قادر ہوئے۔ یہ اونگھ اُن کے حق میں نعمت تھی ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ’’ یہ اونگھ معجزہ کے حکم میں ہے کیونکہ یکبارگی سب کواونگھ آئی اور کثیر جماعت کا شدید خوف کی حالت میں اِس طرح یکبارگی اونگھ جانا خلاف ِعادت ہے۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۱۸۲)

{وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً:اور تم پر آسمان سے پانی اتارا ۔} غزوۂ بدر کے دن مسلمان ریگستان میں اُترے تو اُن کے اور اُن کے جانوروں کے پاؤں ریت میں دھنسے جاتے تھے جبکہ مشرکین اُن سے پہلے پانی کی جگہوں پر قبضہ کر چکے تھے ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے بعض کو وضو کی اور بعض کو غسل کی ضرورت تھی اور اس کے ساتھ پیاس کی شدت بھی تھی۔ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تمہارا گمان ہے کہ تم حق پر ہو، تم میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی ہیں اورتم اللہ والے ہو جبکہ حال یہ ہے کہ مشرکین غالب ہو کر پانی پر پہنچ گئے اور تم وضو اور غسل کئے بغیر نمازیں پڑھ رہے ہو تو تمہیں دشمن پر فتح یاب ہونے کی کس طرح امید ہے ؟شیطان کا یہ وسوسہ یوں زائل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بارش بھیجی جس سے وادی سیراب ہوگئی اور مسلمانوں نے اس سے پانی پیا، غسل اور وضو کئے، اپنی سواریوں کو پانی پلایا اور اپنے برتنوں کو پانی سے بھر لیا، بارش کی وجہ سے غبار بھی بیٹھ گیا اور زمین اس قابل ہوگئی کہ اس پر قدم جمنے لگے ، صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دل خوش ہو گئے اور بارش کی نعمت کامیابی اور فتح حاصل ہونے کی دلیل ہوئی۔(تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۱۹۷)