banner image

Home ur Surah Al Anfal ayat 18 Translation Tafsir

اَلْاَ نْفَال

Al Anfal

HR Background

فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ۪-وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىۚ-وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(17)ذٰلِكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَیْدِ الْكٰفِرِیْنَ(18)

ترجمہ: کنزالایمان تو تم نے انہیں قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی اور اس لیے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھا انعام عطا فرمائے بیشک اللہ سنتا جانتا ہے۔ یہ تو لو اور اس کے ساتھ یہ ہے کہ اللہ کافروں کا داؤں سست کرنے والا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان : تو تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور اے حبیب! جب آپ نے خاک پھینکی تو آپ نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی اور اس لئے تا کہ مسلمانوں کواپنی طرف سے اچھا انعام عطا فرمائے۔ بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ یہ حق ہے اور یہ کہ اللہ کافروں کے مکرو فریب کو کمزور کرنے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ:تو تم نے انہیں قتل نہیں کیا۔} شانِ نزول: جب مسلمان جنگِ بدر سے واپس ہوئے تو ان میں سے ایک کہتا تھا کہ میں نے فلاں کو قتل کیا، دوسرا کہتا تھا میں نے فلاں کو قتل کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اس قتل کو تم اپنے زور ِبازو اور طاقت و قوت کی طرف منسوب نہ کرو کہ یہ درحقیقت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امداد اور اس کی تَقْوِیَت اور تائید ہے۔(تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۱۹۹)

ہر اچھے کام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اچھے اور نیک کام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہئے اور جب انسان کوئی اچھا اور نیک کام کرے تو اس پر فخر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ نیک کام بندہ خود نہیں کرتا بلکہ جو بھی نیک کام کرتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی توفیق شاملِ حال ہوتو ہی کرتا ہے۔

{وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى:اور اے محبوب! جب آپ نے خاک پھینکی تو آپ نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ  نے پھینکی تھی۔} شانِ نزول: اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق جمہور مفسرین کا مختار قول یہ ہے کہ جب کفار اور مسلمانوں کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ہوئیں تورسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مٹھی خاک کافروں کے چہرے پر ماری اور فرمایا ’’شَاہَتِ الْوُجُوْہ‘‘ یعنی ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں۔ وہ خاک تمام کافروں کی آنکھوں میں پڑی اور صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بڑھ کر انہیں قتل اور گرفتار کرنے لگے۔ کفارِ قریش کی شکست کا اصل سبب خاک کی وہ مٹھی تھی جو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھینکی تھی۔ اس موقع پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

’’ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى‘‘

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اے حبیب!جب آپ نے خاک پھینکی تو وہ آپ نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔( تفسیر طبری، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۲۰۳، قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۲۷۶، الجزء السابع)

             اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اس واقعے کی منظر کشی کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں :

میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ

 جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا