Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 19 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُۚ-وَ اِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْۚ-وَ لَنْ تُغْنِیَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَوْ كَثُرَتْۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ(19)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا:اے کافرو!اگر تم فیصلہ مانگتے ہو۔} شانِ نزول: اس آیت میں خطاب ان مشرکین سے ہے جنہوں نے بدر میں سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کی اور ان میں سے ابوجہل نے اپنے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں یہ دُعا کی کہ’’یارب ہم میں جو تیرے نزدیک اچھا ہو ا س کی مدد کر اور جو برا ہواسے مصیبت میں مبتلا کر۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۱۸۶)
اور ایک روایت میں ہے کہ مشرکین نے مکہ مکرمہ سے بدر کی طرف چلتے وقت کعبہ معظمہ کے پردوں سے لپٹ کر یہ دعا کی تھی کہ’’یارب! اگر محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) حق پر ہوں تو ان کی مدد فرما اور اگر ہم حق پر ہوں تو ہماری مدد کر اس پر یہ آیت نازل ہوئی (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۰۸) کہ جو فیصلہ تم نے چاہاتھا وہ کردیا گیا اور جو گروہ حق پر تھا اس کو فتح دی گئی، یہ تمہارا اپنا مانگا ہوا فیصلہ ہے۔ اب آسمانی فیصلہ سے بھی اسلام کی حقانیت ثابت ہوئی، ابوجہل بھی اس جنگ میں ذلت و رسوائی کے ساتھ مارا گیا اور اس کا سر رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔
{وَ اِنْ تَنْتَهُوْا:اور اگر تم با ز آجاؤ۔} آیت کے اس حصے میں بھی کفار سے خطاب ہے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دشمنی رکھنے ،انہیں جھٹلانے اور ان کے خلاف جنگ کرنے سے باز آ گئے تو یہ دین اور دنیا دونوں میں تمہارے لئے بہتر ہے۔ دین میں اس طرح کہ تم دائمی عذاب سے بچ جاؤ گے اور ثواب سے مالا مال کئے جاؤ گے، جبکہ دنیا میں اس طرح کہ تم قتل کئے جانے ،قیدی بنائے جانے اور غنیمت کے طور پر اَموال لے لئے جانے سے بچ جاؤ گے اور اگر تم نے مسلمانوں سے دوبارہ جنگ کی تو ہم پھر مسلمانوں کو تم پر مُسلَّط کر دیں گے جیسا کہ تم غزوۂ بدر میں مشاہدہ کر چکے ہو اور یہ جان چکے ہوکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تائید اور نصرت تمہاری بجائے مسلمانوں کے ساتھ ہے اور تم کتنی بھاری جمعیت لے کر کیوں نہ آؤ وہ تمہیں شکست سے نہ بچا سکے گی جیسے بدر کے میدان میں تمہارا بڑا جتھا تمہارے کسی کام نہ آیا۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۴۶۸)
اس آیت میں غیب کی خبر ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کے بھاری لشکر بھی مغلوب ہو جائیں گے، اللہ تعالیٰ نے یہ خبر پوری فرما دی ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے عہدِ خلافت اور بعد میں بھی تھوڑے مسلمان بہت سے کافروں پر غالب آئے۔مسلمانوں کی جنگی تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ
(1)…غزوۂ موتہ میں صرف تیس ہزار جانثارانِ مصطفٰی کے مقابلے میں روم کے بادشاہ قیصر کی فوج کی تعداد دو لاکھ تھی، لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ کے شیروں نے اس جنگ میں پرچمِ اسلام سرنگوں نہ ہونے دیا۔
(2)… جنگِ یرموک میں حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تقریباً40000 کی قلیل فوج کے ساتھ دشمن کے دس لاکھ ساٹھ ہزار فوجیوں سے ٹکرا ئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نصرت و حمایت سے کامیاب و کامران ہوئے۔
(3)… اسی جنگ میں حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صرف 60 کفن بَردوش مجاہدین کے ساتھ دشمن کے 60000 جنگجو اور سر تا پا لوہے سے لیس فوجیوں کے ساتھ صبح سے لے کر شام تک مقابلہ کیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے ان پر غالب آگئے۔
(4)… حضرت طارق بن زیاد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صرف 1700 جانباز مجاہدین کے ساتھ اندلس کے بادشاہ لڈریک کے ستر ہزار شہسواروں سے جنگ کی اور نصرتِ الٰہی کے صدقے انہیں کچل کر رکھ دیا۔
یہ غازی یہ تیرے پُراَسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی