banner image

Home ur Surah Al Anfal ayat 26 Translation Tafsir

اَلْاَ نْفَال

Al Anfal

HR Background

وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَ اَیَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(26)

ترجمہ: کنزالایمان اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے ملک میں دبے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچک نہ لے جائیں تو اس نے تمہیں جگہ دی اور اپنی مدد سے زور دیا اور ستھری چیزیں تمہیں روزی دیں کہ کہیں تم احسان مانو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور یاد کرو جب تم زمین میں تھوڑے تھے ،دبے ہوئے تھے، تم ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچک کر نہ لے جائیں تواللہ نے تمہیں ٹھکانہ دیا اور اپنی مدد سے تمہیں قوت دی اورتمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا تاکہ تم شکر ادا کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اذْكُرُوْا:اور یاد کرو۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو اپنی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا اور فتنے سے ڈرایا، اب اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتیں یاد دلا ئیں چنانچہ ارشاد فرمایا: اے مہاجرین کے گروہ! یاد کرو، جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت سے پہلے تم تعداد میں کم تھے اور ابتدائے اسلام میں مکہ کی سرزمین پر تمہیں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تم دوسرے شہروں میں سفر کرنے سے ڈرتے تھے کہ کہیں کفار لوٹ نہ لیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں مکہ سے مدینہ منتقل کر کے ٹھکانہ دیا اور تم کفار کے شر سے محفوظ ہوگئے اور اپنی مدد سے تمہیں قوت عطا کی کہ بدر کی جنگ میں کفار پر تمہاری ہیبت ڈال دی جس کے نتیجے میں تم اپنے سے تین گنا بڑے لشکر پر غالب آ گئے اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا کہ تمہارے لئے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا جبکہ پہلی امتوں پر وہ حرام تھا تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرو۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۱۸۹، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۶، ۵ / ۴۷۴، ملتقطاً)

نعمت کی ناشکری نعمت چھن جانے کا سبب ہے:

            ہر دور میں اسی طرح اللہ تعالیٰ اجتماعی اور اِنفرادی طور پر مسلمانوں کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا ہے، مصائب و آلام سے نجات دے کر راحت و آرام عطا کر تا ہے۔ جب مسلمان اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتے، یادِ خدا سے غفلت کو اپنا شعار بنا لیتے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اپنے برے اعمال کی کثرت کی وجہ سے خود کواللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نااہل ثابت کردیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی دی ہوئی نعمتیں واپس لے لیتا ہے۔ عالمی سطح پر عظیم سلطنت رکھنے کے بعد مسلمانوں کا زوال، عزت کے بعد ذلت، فتوحات کے بعد موجودہ شکست وغیرہ اس چیز کی واضح مثالیں موجود ہیں۔