Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 30 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَؕ-وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ(30)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ:اور اے محبوب یاد کرو۔} آیت میں اُس واقعے کا ذکر ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ذکر فرمایا کہ کفارِ قریش دارُالنَّدوہ ( یعنی کمیٹی گھر) میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں مشورہ کرنے کے لئے جمع ہوئے اور ابلیس لعین ایک بڈھے کی صورت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں نجد کاشیخ ہوں ، مجھے تمہارے اس اجتماع کی اطلاع ہوئی تو میں آیا، مجھ سے تم کچھ نہ چھپانا میں تمہارا رفیق ہوں اور اس معاملہ میں بہتر رائے سے تمہاری مدد کروں گا۔ انہوں نے اس کو شامل کرلیا اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق رائے زنی شروع ہوئی ۔ ابوالبختری نے کہا کہ’’ میری رائے یہ ہے کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو پکڑ کر ایک مکان میں قید کردو اور مضبوط بندشوں سے باندھ کر دروازہ بند کردو ،صرف ایک سوراخ چھوڑ دو جس سے کبھی کبھی کھانا پانی دیا جائے اور وہیں وہ ہلاک ہو کر رہ جائیں۔ اس پر شیطان لعین جو شیخِ نجدی بنا ہوا تھا بہت ناخوش ہوا اور کہا: بڑی ناقص رائے ہے، جب یہ خبر مشہور ہوگی تو اُن کے اصحاب آئیں گے اور تم سے مقابلہ کریں گے اور انہیں تمہارے ہاتھ سے چھڑا لیں گے۔ لوگوں نے کہا :شیخِ نجدی ٹھیک کہتا ہے ۔ پھر ہشام بن عمرو کھڑا ہوا، اس نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ان کو (یعنی محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو) اونٹ پر سوار کر کے اپنے شہر سے نکال دو ،پھر وہ جوکچھ بھی کریں اس سے تمہیں کچھ ضرر نہیں۔ ابلیس نے اس رائے کو بھی ناپسند کیا اور کہا : جس شخص نے تمہارے ہوش اُڑا دیئے اور تمہارے دانشمندوں کو حیران بنادیا اس کو تم دوسروں کی طرف بھیجتے ہو! تم نے اس کی شیریں کلامی نہیں دیکھی ہے ؟اگر تم نے ایسا کیا تو وہ دوسری قوم کے دلوں کو تسخیر کرکے ان لوگوں کے ساتھ تم پر چڑھائی کر دیں گے۔ اہلِ مجمع نے کہا :شیخِ نجدی کی رائے ٹھیک ہے۔ اس پر ابوجہل کھڑا ہوا اور اس نے یہ رائے دی کہ قریش کے ہر ہر خاندان سے ایک ایک عالی نسب جوان منتخب کیا جائے اور ان کو تیز تلواریں دی جائیں ، وہ سب یکبارگی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حملہ آور ہو کر قتل کردیں تو بنی ہاشم قریش کے تمام قبائل سے نہ لڑ سکیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ انہیں خون کا معاوضہ دینا پڑے گا اور وہ دے دیا جائے گا۔ ابلیس لعین نے اس تجویز کوپسند کیا اور ابوجہل کی بہت تعریف کی اور اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ پیش کیا اور عرض کی کہ حضور! رات کے وقت اپنی خواب گاہ میں نہ رہیں ، اللہ تعالیٰ نے اِذن دیا ہے، آپ مدینہ طیبہ کا عزم فرمائیں۔ حضور ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو رات میں اپنی خواب گاہ میں رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہماری چادر شریف اوڑھ لو تمہیں کوئی ناگواربات پیش نہ آئے گی اور حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دولت سرائے اقدس سے باہر تشریف لائے اور ایک مشت خاک دستِ مبارک میں لی اور آیت ’’اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا‘‘پڑھ کر مُحاصَرہ کرنے والوں پر ماری ،سب کی آنکھوں اور سروں پر پہنچی ، سب اندھے ہوگئے اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ دیکھ سکے ۔اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہمراہ غارِ ثور میں تشریف لے گئے اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو لوگوں کی امانتیں پہنچانے کے لئے مکہ مکرمہ میں چھوڑا ۔مشرکین رات بھر سیّد ِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دولت سرائے اقدس کا پہرہ دیتے رہے، صبح کے وقت جب قتل کے ارادہ سے حملہ آور ہوئے تو دیکھا کہ بستر پر حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ہیں۔ ان سے حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں دریافت کیا کہ کہاں ہیں تو انہوں نے فرمایا: ہمیں معلوم نہیں۔ کفارِ قریش تلاش کے لئے نکلے ،جب غارِ ثور پر پہنچے تو مکڑی کے جالے دیکھ کر کہنے لگے کہ اگر اس میں داخل ہوتے تو یہ جالے باقی نہ رہتے۔حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس غار میں تین دن ٹھہرے پھر مدینہ طیبہ روانہ ہوئے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۰، ۲ / ۱۹۱-۱۹۲)