Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 38 ≫ Translation ≫ Tafsir
لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَهٗ عَلٰى بَعْضٍ فَیَرْكُمَهٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَهٗ فِیْ جَهَنَّمَؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(37)قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَۚ-وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ(38)
تفسیر: صراط الجنان
{لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ:تاکہ اللہ خبیث کو پاکیزہ سے جدا کردے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو خبیث اور مؤمنین کو طیب کہہ کر دونوں میں فرق بیان فرمایا ہے اور آخرت میں ان کے درمیان فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کوجنت اور کفار کو جہنم میں داخل فرمائے گا ۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۷، ۲ / ۱۹۵)
{قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا:تم کافروں سے فرماؤ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں سے فرما دیجئے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرنے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے سے باز آ جائیں اور دینِ اسلام میں داخل ہو کردینِ اسلام کو مضبوطی سے تھام لیں تو اللہ تعالیٰ ان کا کفر اور اسلام سے پہلے کے گناہ معاف فرما دے گا اور اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے ،آپ کے اور مسلمانوں کے خلاف پھر جنگ کی تو اس معاملے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سنت گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو ہلاک فرما دیتا ہے اور اپنے اَنبیاء و اَولیاء کی مدد فرماتا ہے جیسے پچھلی امتوں کے کفار نے جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسولوں کو جھٹلایا ،ان کی نصیحت قبول کرنے کی بجائے سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں عبرتناک عذاب میں مبتلا کر دیا ، یونہی جنگِ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی اور مشرکوں کو شکست و رسوائی سے دوچار کیا وہ پھر ایسا ہی کرے گا۔(بیضاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۱۰۷، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۱۹۵، تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۲۴۴، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر جب کفر سے باز آئے اور اسلام قبول کر لے تو اس کا پہلا کفر اور حالتِ کفر میں کئے گئے گنا ہ سب معاف ہوجاتے ہیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ جب عمرو بن عاص اسلام قبول کرنے کے لئے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دستِ اقدس تھام کر عرض کی کہ میں اس شرط پر اسلام قبول کرتا ہوں کہ میری مغفرت کر دی جائے،تورسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام قبول کرنا سابقہ گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب کون الاسلام یہدم ما قبلہ۔۔۔ الخ، ص۷۴، الحدیث: ۱۹۲ (۱۲۱))