banner image

Home ur Surah Al Anfal ayat 42 Translation Tafsir

اَلْاَ نْفَال

Al Anfal

HR Background

اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْؕ-وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِۙ-وَ لٰـكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ﳔ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(42)

ترجمہ: کنزالایمان جب تم نالے کے اس کنارے تھے اور کافر پرلے کنا رے اور قا فلہ تم سے ترائی میں اور اگر تم آپس میں کوئی وعدہ کرتے تو ضرور وقت پر برابر نہ پہنچتے لیکن یہ اس لیے کہ اللہ پورا کرے جو کام ہونا ہے کہ جو ہلاک ہو دلیل سے ہلاک ہو اور جو جئے دلیل سے جئے اور بیشک اللہ ضرور سنتا جانتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان جب تم قریب والی جانب تھے اور وہ کافر دور والی جانب تھے اور قافلہ تم سے نیچے والی طرف تھا اور اگر تم آپس میں کوئی وعدہ کرتے تو ضرور مدت کے بارے میں تمہارا اختلاف ہوجاتا لیکن کیونکہ اللہ نے اس کام کو پورا کرنا تھا جسے ہوکر ہی رہنا تھا تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ واضح دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ بھی واضح دلیل سے زندہ رہے اور بیشک اللہ ضرور سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا:جب تم قریب والی جانب تھے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر بدر کی ا س جانب تھا جو مدینہ طیبہ سے قریب تھی اور کفار کا لشکر وادیٔ بدر کی دوسری جانب تھا جو کہ مدینہ طیبہ سے دور تھی جبکہ ابوسفیان وغیرہ کاتجارتی قافلہ وادیٔ بدر کے نچلی جانب تین میل کے فاصلے پر ساحلِ سمند ر کی طرف تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پہلے سے وقت مقرر کئے بغیر کفار کے مقابلے میں لا کھڑا کیا، اس میں حکمت یہ تھی کہ اگر مسلمان اور کفار جنگ کا کوئی وقت معین کر لیتے پھر مسلمان اپنی قلیل تعداد، بے سروسامانی، کفار کی کثیر تعداد اور ان کے سامان کی کثرت دیکھتے تو ہیبت و خوف کی وجہ سے ہمت ہار بیٹھتے اور میدانِ جنگ سے کترا کر نکل جاتے لیکن مدت مقرر کئے بغیر لڑائی اس لئے ہوگئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام و مسلمین کی مدد اور دشمنانِ دین کی ہلاکت کا کام پورا کرنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وقت مقرر کئے بغیر ہی جمع کردیا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۱۹۸)

{لِیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ:تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ واضح دلیل سے ہلاک ہو۔}غزوۂ بدر کی ابتداء میں مسلمانوں کے لشکر کی حالت یہ تھی کہ مجاہدین اسباب کی کمی اور تیاری نہ ہونے کی وجہ سے خوف اور گھبراہٹ میں مبتلا تھے، ان کی جائے قیام پانی سے دور تھی، زمین ریتلی ہونے کی وجہ سے اس میں پیر دھنس جاتے تھے، جبکہ لشکر ِکفار کا حال یہ تھا کہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی، کھانے پینے کا سامان اور ہتھیار ان کے پاس وافر مقدار میں موجود تھے اور وہ پانی کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے، ان کی زمین ریتلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لئے چلنا آسان تھا مزید یہ کہ ان کے پیچھے ابو سفیان کا قافلہ تھا جس سے بَوقتِ ضرورت انہیں مدد حاصل ہونے کی امید تھی یوں بظاہر حالات کافروں کے موافق اور مسلمانوں کے مخالف تھے۔ جب دونوں لشکروں کی آپس میں جنگ ہوئی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے نقشہ ہی بدل دیا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو بہت بڑی فتح نصیب ہوئی اور کفار بد ترین شکست سے دوچار ہوئے۔ مسلمانوں کی فتح اور کفار کی شکست  تاجدارِ انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عظیم معجزہ اور نبوت کے دعویٰ کی صداقت پر مضبوط دلیل ہے کیونکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو فتح کی بشارت دی اور فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے۔ نیز مسلمانوں کو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فتح کی بشارت اس وقت دی تھی کہ جب ظاہری اور مادی طور پر مسلمانوں کی فتح کے کوئی آثار نہ تھے ،یوں بدر کی فتح سے نبیِّ آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی سچائی ظاہر ہو گئی اور اسلام کی صداقت پر مضبوط دلیل قائم ہو گئی ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اب جو کفر اختیار کر کے ہلاکت میں پڑے گا تو دلیل قائم ہونے اور حجت پوری ہوجانے کے بعد ہلاکت میں پڑے گا اور جو اسلام قبول کر کے زندگی حاصل کرے گا تو وہ دلیل قائم ہونے کے بعد کرے گا۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۲، ۵ / ۴۸۷)