Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 41 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(41)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ:اور جان لو کہ تم جو مالِ غنیمت حاصل کرو ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کا حکم اور اس کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمایا ہے، اس کی وضاحت درج ذیل ہے۔
غنیمت کی تعریف:
وہ مال جسے مسلمان کفار سے جنگ میں قہر و غلبہ کے طور پر حاصل کریں اسے غنیمت کہتے ہیں اور جنگ کے بغیر جو مال کفار سے حاصل کیا جائے جیسے خَراج اور جِزیہ اس کو فَئے کہتے ہیں۔(در مختار وردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، ۶ / ۲۱۸)
مالِ غنیمت کی حِلَّت اس اُمت کی خصوصیت ہے:
یاد رہے کہ مالِ غنیمت کا حلال ہونا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کی خصوصیات میں سے ہے، سابقہ امتوں میں سے کسی کے لئے غنیمت کا مال حلال نہیں تھا، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہم سے پہلے کسی کے لیے غنیمت حلال نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ نے ہمارا ضُعف و عِجز دیکھ کر اسے ہمارے لیے حلال کر دیا۔ (بخاری، کتاب فرض الخمس، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: احلّت لکم الغنائم، ۲ / ۳۴۹، الحدیث: ۳۱۲۴، مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب تحلیل الغنائم لہذہ الامۃ خاصۃ، ص۹۵۹، الحدیث: ۳۲(۱۷۴۷))
اورحضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل فرمایا‘‘ یا ارشاد فرمایا ’’میری امت کو تمام امتوں سے افضل کیا اور ہمارے لیے غنیمت حلال کی۔(ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغنیمۃ، ۳ / ۱۹۶، الحدیث: ۱۵۵۸)
مالِ غنیمت کا حکم اوراس کی تقسیم کا طریقہ:
مالِ غنیمت کے حکم اور ا س کی تقسیم سے متعلق چند مسائل درج ذیل ہیں۔
(1)… مالِ غنیمت میں سے خُمُسْ یعنی پانچواں خاص اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے ہے ، پانچواں حصہ نکال کرباقی چار حصے مجاہدین پر تقسیم کر دئیے جائیں گے اور مالِ فَئے مکمل طور پربیتُ المال میں رکھا جائے گا۔(در مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجھاد، باب المغنم وقسمتہ، ۶ / ۲۱۸-۲۱۹ملتقطاً)
(2)…رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد اب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اہلِ قرابت کے حصے ساقط ہو گئے۔ اب مالِ غنیمت کا جو پانچواں حصہ نکالا جائے تو اس کے تین حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ یتیموں کے لئے، ایک مسکینوں اور ایک مسافروں کے لئے اوراگر یہ تینوں حصے ایک ہی قسم مثلاً یتیموں یا مسکینوں پر خرچ کردئیے جب بھی جائز ہے اور مجاہدین کو حاجت ہو تو ان پر خرچ کرنا بھی جائز ہے۔(مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۴۱۳، درّ مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، فصل فی کیفیۃ القسمۃ، ۶ / ۲۳۷)
(3)…بنی ہاشم وبنی مُطَِّلب کے یتیم اور مساکین اور مسافر اگر فقیر ہوں تو یہ لوگ دوسروں کی بہ نسبت خمس کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ او فُقرا تو زکوٰۃ بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ نہیں لے سکتے اور یہ لوگ غنی ہوں تو خمس میں ان کا کچھ حق نہیں۔(درّ مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، فصل فی کیفیۃ القسمۃ، ۶ / ۲۳۷-۲۳۸)
(4)…خُمُس کے علاوہ باقی چار حصے مجاہدین پر اس طرح تقسیم کئے جائیں گے کہ سوار کو پیدل کے مقابلے میں دگنا ملے گا یعنی ایک اس کا حصہ اور ایک گھوڑے کا اور گھوڑا عربی ہو یا کسی اور قسم کا سب کا ایک حکم ہے۔ لشکر کا سردار اور سپاہی دونوں برابر ہیں یعنی جتنا سپاہی کو ملے گا اتنا ہی سردار کو بھی ملے گا۔ اونٹ اور گدھے اور خچر کسی کے پاس ہوں توان کی وجہ سے کچھ زیادہ نہ ملے گا یعنی اسے بھی پیدل والے کے برابر ملے گا اور اگر کسی کے پاس چند گھوڑے ہوں جب بھی اتنا ہی ملے گا جتنا ایک گھوڑے کے لیے ملتا تھا۔(عالمگیری، کتاب السیر، الباب الرابع فی الغنائم وقسمتہا، الفصل الثانی فی کیفیۃ القسمۃ، ۲ / ۲۱۲)
نوٹ:غنیمت کے مزید مسائل جاننے کے لئے بہار شریعت حصہ 9 سے’’ غنیمت کا بیان ‘‘ مطالعہ کیجئے۔
{یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ:جس دن دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئی تھیں۔} اس دن سے روز ِبدر مراد ہے اور دونوں فوجوں سے مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں مراد ہیں اور یہ واقعہ سترہ رمضان کو پیش آیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی تعداد تین سو دس سے کچھ زیادہ تھی اور مشرکین ہزار کے قریب تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہزیمت دی، ان میں سے ستر سے زیادہ مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۱۹۸)