Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 60 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْۚ-لَا تَعْلَمُوْنَهُمْۚ-اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(60)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ:اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو۔} اس آیت میں قوت سے مراد یہ ہے کہ اسلحے اور آلات کی وہ تمام اقسام کہ جن کے ذریعے دشمن سے جنگ کے دوران قوت حاصل ہو۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قلعے اور پناہ گاہیں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد رَمی یعنی تیر اندازی ہے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۰، ۲ / ۲۰۵)
جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سیدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس آیت کی تفسیر میں قوت کے معنی رمی یعنی تیر اندازی بتائے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ وذم من علمہ ثمّ نسیہ، ص۱۰۶۱، الحدیث: ۱۶۷(۱۹۱۷)) فی زمانہ میزائل وغیرہ بھی اسی میں داخل ہوں گے۔
آیت’’ وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں:
(1)… جہاد کی تیاری بھی عبادت ہے اور جہاد کی طرح حسبِ موقع یہ تیاری بھی فرض ہے جیسے نماز کے لئے وضو ضروری ہے۔
(2)… عبادت کے اَسباب جمع کرنا عبادت ہے اور گناہ کے اسباب جمع کرنا گناہ ہے جیسے حجِ فرض کیلئے سفر کرنا فرض ہے اور چوری کے لئے سفر کرنا حرام ہے۔
(3)…کفار کو ڈرانا دھمکانا اپنی قوت دکھانا بہادری کی باتیں کرنا جائز ہیں حتّٰی کہ کافروں کے دل میں رُعب ڈالنے کیلئے غازی اپنی سفید داڑھی کو سیاہ کر سکتا ہے ورنہ ویسے سیاہ خضاب ناجائز وگناہ ہے۔
فتح و نصرت کی عظیم تدبیر:
مذکورہ بالا آیت ِ کریمہ فتح و نصرت اور غلبہ و عظمت کی عظیم تدبیر پر مشتمل ہے اور اس آیت کی حقانیت سورج کی طرح روشن ہے جیسے آج کے دور میں دیکھ لیں کہ جس ملک کے پاس طاقت و قوت اور اسلحہ و جنگی سازوسامان کی کثرت ہے اس کا بدترین دشمن بھی اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا جبکہ کمزور ملک پر سب مل کر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، جیسے ایک بڑی طاقت اپنا سب سے بڑا دشمن دوسری بڑی طاقتوں کو سمجھتی ہے لیکن آج تک اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کی کیونکہ اُن کے پاس پہلی کا دماغ ٹھیک کرنے کے نسخے موجود ہیں لیکن وہی بڑی طاقتیں اور عالمی امن کے جھوٹے دعویدار کمزور ممالک کو طاقت دکھانے میں شیرہیں اور ان ممالک میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اِسی آیت پر کچھ عمل کی برکت ہے کہ پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی جسارت کسی کو نہیں ہورہی کیونکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ۔ اگر مسلمان مل کر اِس آیت پر عمل کریں تو کیا مجال کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو تنگ کرسکے۔
{وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ:اور جو اُن کے علاوہ ہیں۔} یہاں دوسرے لوگوں سے کون مراد ہیں ان کے بارے میں مفسرین کاایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد بنو قریظہ کے یہودی ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد فارس کے مجوسی ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد منافقین ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ‘‘تم انہیں نہیں جانتے کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتے ہیں اور اپنی زبانوں سے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کہتے ہیں جبکہ’’اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْ‘‘ اللہ انہیں جانتا ہے کہ وہ منافق ہیں۔ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس سے مراد کافر جنّات ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۰، ۲ / ۲۰۶)