Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 67 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِؕ-تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا ﳓ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(67)
تفسیر: صراط الجنان
{حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ:جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہالے۔ } ارشاد فرمایا کہ کسی نبی کے لائق نہیں کہ اپنے ہاں کافروں کو قید رکھے جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہالے اور قتلِ کفار میں مبالغہ کرکے کفر کی ذلت اور اسلام کی شوکت کا اظہار نہ کرے۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۴۲۰)
شانِ نزول: مسلم شریف وغیرہ کی احادیث میں ہے کہ جنگِ بدر میں ستر کافر قید کرکے سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں لائے گئے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے متعلق صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ طلب فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ یہ آپ کی قوم و قبیلے کے لوگ ہیں ، میری رائے میں انہیں فِدیَہ لے کر چھوڑ دیا جائے، اس سے مسلمانوں کو قوت بھی پہنچے گی اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام نصیب کرے۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مکہ مکرمہ میں نہ رہنے دیا نیزیہ کفر کے سردار اور سرپرست ہیں ان کی گردنیں اڑا دی جائیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو فدیہ سے غنی کیا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو عقیل پر اور مجھے میرے رشتے دار پر مقرر کیجئے کہ ان کی گردنیں مار دیں۔ لیکن بِالآخِر فدیہ ہی لینے کی رائے قرار پائی اور جب فدیہ لیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔۔ الخ، ص۹۶۹،الحدیث: ۵۸(۱۷۶۳))
{تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا:تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہو۔} اس آیت میں خطاب مؤمنین سے ہے اور مال سے فدیہ مراد ہے۔ یعنی تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہواو ر اللہ تمہارے لئے آخرت کا ثواب چاہتا ہے جو کفار کے قتل اور اسلام کے غلبے کی صورت میں تمہیں ملے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ یہ حکم بدر میں تھا جبکہ مسلمان تھوڑے تھے پھر جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوئی اور وہ فضلِ الٰہی سے قوی ہوئے تو قیدیوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ’’فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً‘‘ (محمد:۴)(پھر اس کے بعد احسان کرکے چھوڑ دویا فدیہ لے لو)اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مؤمنین کو اختیار دیا کہ چاہے کافروں کو قتل کریں ، چاہے انہیں غلام بنائیں ، چاہے فدیہ لیں ،چاہے آزاد کریں۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ چالیس اوقیہ سونا فی کس تھا جس کے سولہ سو درہم ہوئے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۷، ۲ / ۲۰۹-۲۱۰)