banner image

Home ur Surah Al Anfal ayat 68 Translation Tafsir

اَلْاَ نْفَال

Al Anfal

HR Background

لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(68)

ترجمہ: کنزالایمان اگر اللہ پہلے ایک بات لکھ نہ چکا ہوتا تو اے مسلمانو تم نے جو کافروں سے بدلے کا مال لے لیااس میں تم پر بڑا عذاب آتا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اگر اللہ کی طرف سے پہلے سے ایک حکم لکھا ہو انہ ہوتا، تو اے مسلمانو! تم نے کافروں سے جو مال لیا ہے اس کے بدلے تمہیں بڑا عذاب پکڑلیتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ:اگراللہ کی طرف سے پہلے سے ایک لکھی ہوئی بات نہ ہوتی۔} اس آیت میں ’’ كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ‘‘ کے بارے میں مفسرین نے مختلف اقوال ذکر کئے ہیں ، ان میں سے 3درج ذیل ہیں۔

(1) …اس لکھے ہوئے سے مراد یہ ہے کہ  اِجتہاد پرعمل کرنے والے سے مُواخَذہ نہ فرمائے گا اور یہاں صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اجتہاد ہی کیا تھا اور ان کی فکر میں یہی بات آئی تھی کہ کافروں کو زندہ چھوڑ دینے میں ان کے اسلام لانے کی امید ہے اور فدیہ لینے میں دین کو تَقْوِیَت ہوتی ہے اور اس پر نظر نہیں کی گئی کہ قتل میں اسلام کا غلبہ اور کفار کی تَہدید ہے۔ یہاں ایک مسئلہ یاد رکھیں کہ سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اس دینی معاملہ میں صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی رائے دریافت فرمانا مشروعیتِ اجتہاد کی دلیل ہے۔

 (2)…یا ’’ كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ‘‘ سے وہ مراد ہے جو اس نے لوحِ محفوظ میں لکھا کہ اہلِ بدر پر عذاب نہ کیا جائے گا۔

(3)…یا اس سے وہ مراد ہے جو اس نے لوحِ محفوظ میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے غنیمتیں حلال فرمائے گا۔

          یاد رہے کہ آیت کے اگلے حصے ’’لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ‘‘ میں ان صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم  سے خطاب ہے جو فدیہ لینے پر راضی تھے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس خطاب میں داخل نہیں۔ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اگر آسمان سے عذاب نازل ہوتا تو حضرت عمر بن خطاب اور حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بچ جاتے کیونکہ ان کی رائے عالی فدیہ لینے کے خلاف تھی۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۴۲۱، روح المعانی، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۸، ۵ / ۳۲۲، ملتقطاً)

شانِ فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ:

            اس شانِ نزول سے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و شان ظاہر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مقام ایسا بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے کے مطابق قرآنِ مجید کی آیات نازل فرماتا ہے ، ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے رایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ نے عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زبان اور دل پر حق جاری فرما دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں : جب کبھی لوگوں میں کوئی معاملہ در پیش ہوا اور ا س کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی کچھ کہا تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے کے مطابق قرآن نازل ہوا۔  (ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۵ / ۳۸۳، الحدیث: ۳۷۰۲)

            مذکورہ بالا آیات کے علاوہ 20سے زائد آیات ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے کے مطابق نازل فرمایا، ان میں سے پانچ آیات درج ذیل ہیں

(1)… مقامِ ابراہیم کو نما زکی جگہ بنانے کی آیت، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کاش ہم مقامِ ابراہیم کو نما زکی جگہ بنالیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا

’’وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى‘‘ (بقرہ:۱۲۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان ور (اے مسلمانو!) تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔

(2)… پردے کی آیت، چنانچہ ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کاش آپ ازواجِ مُطَہَّرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما ئی:’’ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا‘‘ (احزاب:۵۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رکھیں یہ اِس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں ستایا نہ جائے اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

(3)… نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات باہمی کسی اختلاف کے سبب سرکار ِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جمع ہوئیں (جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزاج کے برخلاف تھا) تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ازواجِ مطہرات سے فرمایا کہ یا تو تم اس سے باز آجاؤ ورنہ اگر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہیں طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب عَزَّوَجَلَّ انہیں تم سے اچھی بیویاں عطا فرما دے ، تو آیت بھی اسی طرح اتری اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓىٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓىٕحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا‘‘(تحریم:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر وہ (حبیب)تمہیں طلاق دے دیں توقریب ہے کہ ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں بدل دے جو اطاعت والیاں ، ایمان والیاں ، ادب والیاں ، توبہ کرنے والیاں ، عبادت گزار،روزہ دار ، بیاہیاں اور کنواریاں ہوں۔

(4)…ایک موقع پرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دِل میں خیال پیدا ہوا کہ کاش غلاموں کو اجازت لے کر مکانوں میں داخل ہونے کا حکم ہوتا۔ اس پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی :

’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍؕ-مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَ حِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ وَ مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ۫ؕ-ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَ لَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّؕ-طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ‘‘ (نور:۵۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے غلام اور تم میں سے جو بالغ عمر کو نہیں پہنچے انہیں چاہیے کہ تین اوقات میں فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کے وقت جب تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور نماز عشاء کے بعد (گھرمیں داخلے سے پہلے) اجازت لیں۔ یہ تین اوقات تمہاری شرم کے ہیں۔ ان تین اوقات کے بعد تم پر اور ان پر کچھ گناہ نہیں۔ وہ تمہارے ہاں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے والے ہیں۔ اللہ تمہارے لئے یونہی آیات بیان کرتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

(5)… منافقوں کے سردار عبداللہ بن اُبی کے مرنے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چاہتے تھے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں اور اس کے لئے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کوشش بھی کی، جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی نماز جنازہ پڑھا کر واپس ہوئے تو یہ آیت نازل ہو گئی : ’’وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ‘‘ (توبہ:۸۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مرگئے۔