banner image

Home ur Surah Al Ankabut ayat 11 Translation Tafsir

اَلْعَنْـكَبُوْت

Al Ankabut

HR Background

وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ(11)

ترجمہ: کنزالایمان اور ضرور الله ظاہر کردے گا ایمان والوں کو اور ضرور ظاہر کردے گا منافقوں کو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ضرور الله ایمان والوں کوظاہر کردے گا اور ضرور منافقوں کوظاہر کردے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور ضرور اللہ ایمان والوں  کوظاہر کردے گا۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان لوگوں کو ظاہر کر دے گاجو صدق اور اخلاص کے ساتھ ایمان لائے اور آزمائش و مصیبت میں  اپنے ایمان اور اسلام پر ثابت و قائم رہے اور ان لوگوں  کو بھی ظاہر کر دے گا جو منافق ہیں  اور انہوں  نے مصیبت کی وجہ سے اسلام ترک کر دیااور دونوں  فریقوں  کو ان کے اعمال کی جزا دے گا ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۴۴۶، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۳۳۵، ملتقطاً)

مَصائب و آلام میں  ایمان پر ثابت قدم رہنے کی ترغیب:

            اس آیت میں  ہر مسلمان کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ وہ دین کی وجہ سے آنے والی اَذِیَّتوں  اور تکلیفوں  پر صبر کرے اور مصائب و آلام کی وجہ سے سرمایۂ آخرت یعنی ایمان کو ہر گز ضائع نہ کر دے بلکہ اپنے ایمان اور اسلام پر ثابت قدم رہے اور اپنی ا س قیمتی ترین دولت کی بھر پور حفاظت کرے۔ایسی حالت میں  ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ کائنات کے سردار، دو عالَم کے تاجدار ،حبیب ِپروردگار عَزَّوَجَلَّو صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو راہِ خدا میں  آنے والی تکلیفوں  اور اِن پراُن عظیم ہستیوں کے صبر کرنے کو یاد کرے تاکہ دل کو تسلی ہو،تکلیفوں  پر صبر کرنا آسان ہو اور ایما ن و اسلام پر ثابت قدمی نصیب ہو۔ترغیب کے لئے یہاں  حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے مخلص اور جانثار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کوراہِ خدا میں  آنے والی تکالیف کی جھلک اور ان کے صبر کا حال ملاحظہ ہو، چنانچہ سیرت کی کتابوں  میں  مذکور ہے کہ کفارِ مکہ خاندانِ بنو ہاشم کے انتقام اور لڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوقتل تونہیں  کرسکے لیکن طرح طرح کی تکلیفوں  اور ایذا رَسانیوں  سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے لگے، چنانچہ یہ لوگ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کاہن، جادوگر، شاعر اور مجنون ہونے کا ہر کوچہ و بازار میں  زور دار پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے شریر لڑکوں  کا غول لگا دیاجو راستوں  میں  آپ پر پھبتیاں  کستے، گالیاں  دیتے اور یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے ،کا شور مچا مچا کر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوپر پتھر پھینکتے۔ کبھی کفارِ مکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے راستوں  میں  کانٹے بچھاتے۔ کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک جسم پر نجاست ڈال دیتے۔ کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دھکا دیتے۔ کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس اور نازک گردن میں  چادر کا پھندہ ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے۔ جب حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآن شریف کی تلاوت فرماتے تو یہ کفار قرآن اور قرآن کو لانے والے یعنی حضر ت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اور قرآن کو نازل فرمانے والے یعنی اللہ تعالیٰ کو اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گالیاں  دیتے اور گلی کوچوں  میں  پہرہ بٹھا دیتے تا کہ قرآن کی آواز کسی کے کان میں  نہ پڑنے پائے اور تالیاں  پِیٹ پِیٹ کر اور سیٹیاں  بجا بجا کر اس قدر شوروغُل مچاتے کہ قرآن کی آواز کسی کو سنائی نہیں  دیتی تھی۔ حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب کہیں  کسی عام مجمع میں  یا کفار کے میلوں  میں  قرآن پڑھ کر سناتے یا دعوت ِایمان کا وعظ فرماتے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چچاابولہب آپ کے پیچھے چِلا چِلاکر کہتا جاتا تھا کہ اے لوگو!یہ میرا بھتیجا جھوٹا ہے،یہ دیوانہ ہو گیا ہے،تم لوگ اس کی کوئی بات نہ سنو، (مَعَاذَ اللہ)۔ ایک مرتبہ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ’’ذو المجاز‘‘ کے بازار میں  دعوتِ اسلام کا وعظ فرمانے کے لئے تشریف لے گئے اور لوگوں  کو کلمۂ حق کی دعوت دی تو ابو جہل آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُھول اڑاتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے لوگو!اس کے فریب میں  مت آنا،یہ چاہتا ہے کہ تم لوگ لات و عُزّیٰ کی عبادت چھوڑ دو۔

            حضور رحمت ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں  پر بھی کفارِ مکہ نے ایسے ایسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے کہ مکہ کی زمین بِلبِلا اُٹھی۔ یہ آسان تھا کہ کفارِ مکہ ان مسلمانوں  کو ایک د م قتل کر ڈالتے مگر اس سے ان کافروں  کے جوشِ انتقام کا نشہ نہیں  اتر سکتا تھا کیونکہ کفار اس بات میں  اپنی شان سمجھتے تھے کہ ان مسلمانوں  کو اتنا ستاؤ کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر پھر شرک و بت پرستی کرنے لگیں ، اس لئے قتل کر دینے کی بجائے کفارِ مکہ مسلمانوں  کو طرح طرح کی سزاؤں  اور ایذا رَسانیوں  کے ساتھ ستاتے تھے اورکفارِ مکہ نے ان غریب مسلمانوں  پر بے پناہ مَظالِم ڈھائے اور ایسے ایسے روح فَرسا اور جاں  سوز عذابوں  میں  مبتلا کیا کہ اگر ان مخلص مسلمانوں  کی جگہ پہاڑ بھی ہوتا تو شاید ڈگمگانے لگتا۔ صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں  جب کہ وہاں  کی ریت کے ذرات تنور کی طرح گرم ہو جاتے، اس وقت ان مسلمانوں  کی پشت کو کوڑوں  کی مار سے زخمی کرکے اس جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹاتے اور سینوں  پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیتے کہ وہ کروٹ نہ بدلنے پائیں ، لوہے کو آگ میں  گرم کرکے ان سے ان مسلمانوں  کے جسموں  کو داغتے، پانی میں  اس قدرڈبکیاں  دیتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا ،چٹائیوں  میں  ان مسلمانوں  کو لپیٹ کر ان کی ناکوں  میں  دھواں  دیتے جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا اور وہ کَرب و بے چینی سے بدحواس ہو جاتے۔الغرض سنگدل،بے رحم اور درندہ صفت کافروں  نے ان غریب و بیکس مسلمانوں  پر جبرو اِکراہ اور ظلم و ستم کی کوئی صورت باقی نہیں  چھوڑی مگر ایک بھی مخلص مسلمان کے پائے اِستقامت میں  ذرہ برابر تَزَلْزُل پیدا نہیں  ہوا ۔

             اللہ تعالیٰ ہمیں  آزمائشوں  اور مصیبتوں  پر صبر کرنے اور اپنے دین پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔