Home ≫ ur ≫ Surah Al Ankabut ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
الٓمّٓ(1)اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{الٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے اور اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{اَحَسِبَ النَّاسُ: کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں ہم ’’ایمان لائے‘‘ اور انہیں شدید تکالیف ،مختلف اَقسام کے مَصائب ،عبادات کے ذوق، شہوات کو ترک کرنے اور جان و مال میں طرح طرح کی مشکلات سے آزمایا نہیں جائے گا؟انہیں ضرور آزمایا جائے گا تاکہ اُن کے ایمان کی حقیقت خوب ظاہر ہوجائے اور مخلص مومن اور منافق میں امتیاز ظاہر ہوجائے۔
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کے شانِ نزول کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں ،ان میں سے تین قول درج ذیل ہیں،
(1)…یہ آیت اُن حضرات کے بارے میں نازل ہوئی جو اسلام کا اقرار کرنے کے باوجود مکہ مکرمہ میں تھے ،صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اُنہیں لکھاکہ جب تک ہجرت نہ کر لو اس وقت تک محض اقرار کافی نہیں ،اس پر اُن صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور مدینہ منورہ جانے کے ارادے سے روانہ ہوئے، مشرکین اُن کے پیچھے لگ گئے اور اُن سے لڑائی کی ،ان میں سے بعض حضرات شہید ہوگئے اوربعض بچ کر مدینہ منورہ آئے، اُن کے حق میں یہ دو آیتیں نازل ہوئیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں سے مراد سلمہ بن ہشام ، عیاش بن ابی ربیعہ ، ولید بن ولید اور عمار بن یاسر وغیرہ ہیں جو مکہ مکرمہ میں ایمان لائے۔
(2)…یہ آیتیں حضرت عمار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی وجہ سے ستائے جاتے تھے اور کفار انہیں سخت ایذائیں پہنچاتے تھے۔
(3)…یہ آیتیں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام حضرت مہجع بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئیں ،یہ بدر میں سب سے پہلے شہید ہوئے اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’مہجع شہدا ء کے سردار ہیں اور اس اُمت میں سے جنت کے دروازے کی طرف پہلے وہ پکارے جائیں گے۔‘‘ ان کے والدین اور اُن کی بیوی کو ان کی شہادت کا بہت صدمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ،پھران کی تسلی فرمائی۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲، ص۸۸۴، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۴۴۴-۴۴۵، ملتقطاً)
ہرمسلمان کواس کی ایمانی قوت کے حساب سے آزمایا جاتا ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کاان کی ایمانی قوت کے مطابق امتحان لینا ، اللہ تعالیٰ کاقانون ہے ۔ بیماری، ناداری، غربت، مصیبت، یہ سب رب تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشیں ہیں جن سے مخلص اور منافق ممتاز ہو جاتے ہیں ۔یہاں آزمائشوں سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بڑا ثواب ،بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت فرماتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کرتاہے، پس جو ا س پر راضی ہوا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور جو ناراض ہوا اس کے لئے ناراضگی ہے۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلائ، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۴۰۴)
(2)…حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّب بندوں کی،آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر دین میں کمزور ہو تو اس کے دین کے حساب سے آزمائش کی جاتی ہے۔بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا ہے کہ ا س پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں آزمائشوں پر صبر کرنے اور اپنی رضاپر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔