Home ≫ ur ≫ Surah Al Ankabut ≫ ayat 3 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ(3)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: اور بیشک ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے اس امت سے پہلے لوگوں کوطرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالا لیکن وہ صدق و وفا کے مقام میں ثابت اور قائم رہے ،تو ضرور ضرور اللہ تعالیٰ انہیں دیکھے گا جو اپنے ایمان میں سچے ہیں اور ضرور ضرور ایمان میں جھوٹوں کو بھی دیکھے گا اور ان میں سے ہر ایک کا حال ظاہر فرما دے گا۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳، ص۸۸۴-۴۸۵)
مصیبتوں پر صبر کرنے کی ترغیب:
اس سے معلوم ہوا کہ تمام امتوں میں کئی حکمتوں اور مَصلحتوں کے پیش ِنظر اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ جاری رہا ہے کہ وہ ایمان والوں کو آزمائشوں میں مبتلا فرماتا ہے ،لہٰذا اس کے برخلاف ہونے کی توقّع رکھناجائز نہیں اوریاد رہے کہ اس امت سے پہلے لوگوں پر انتہائی سخت آزمائشیں اور مصیبتیں آئی ہیں ،لیکن پہلے لوگوں نے ان مصیبتوں ا ور آزمائشوں پر صبر کیا اور اپنے دین پر اِستقامت کے ساتھ قائم رہے،یونہی ہم پر بھی آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں گی تو ہمیں بھی چاہئے کہ سابقہ لوگو ں کی طرح صبر و ہمت سے کام لیں اور اپنے دین کے احکامات پر مضبوطی سے عمل کرتے رہیں ۔اسی سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْؕ-مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ‘‘(بقرہ:۲۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر پہلے لوگوں جیسی حالت نہ آئی۔ انہیں سختی اور شدت پہنچی اور انہیں زور سے ہلا ڈالا گیایہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہہ اُٹھے: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَۙ-مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ كَثِیْرٌۚ-فَمَا وَ هَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ‘‘
(اٰل عمران:۱۴۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے تھے تو انہوں نے اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے نہ تو ہمت ہاری اور نہ کمزوری دِکھائی اور نہ (دوسروں سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
اورصحیح بخاری شریف میں ہے،حضرت خباب بن الارت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کعبہ شریف کے سائے میں اپنی چادرسے تکیہ لگائے تشریف فرماتھے کہ ہم نے حاضر ِخدمت ہوکرعرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، (ہم پرمصائب کی حد ہوگئی) ،آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے مدد کیوں طلب نہیں فرماتے اور اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے کیوں دعانہیں فرماتے؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(یہ مصیبتیں صرف تم ہی برداشت نہیں کررہے ہو بلکہ) تم سے پہلے لوگوں میں سے کسی شخص کے لیے گڑھاکھودا جاتا، پھراس گڑھے میں اسے کمرتک گاڑدیتے ،پھرآری لاکراس کے سرپرچلائی جاتی اورکاٹ کراس کے دوحصے کردئیے جاتے، بعض پرلوہے کی کنگھیاں چلائی جاتیں جن سے ان کے گوشت اورہڈیوں کواکھیڑکررکھ دیا جاتا، اس کے باوجودوہ مومن اپنے دین پرثابت قدم رہے، اللہ تعالیٰ کی قسم !یہ دین مکمل ہو کر رہے گا،یہاں تک کہ اگر کوئی سوار صنعا سے حَضْرمَوت تک سفرکرے گاتواسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کاخوف نہ ہوگا اور نہ اپنی بکریوں پر بھیڑیے کا خوف ہو گا،لیکن تم جلد بازی سے کام لیتے ہو۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور اگر مَصائب و آلام آئیں تو ان پر صبر کرنے اور دین ِاسلام کے احکامات پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔