banner image

Home ur Surah Al Ankabut ayat 31 Translation Tafsir

اَلْعَنْـكَبُوْت

Al Ankabut

HR Background

وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰىۙ-قَالُوْۤا اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِۚ-اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ(31)قَالَ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًاؕ-قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْهَا ﱞ لَنُنَجِّیَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﱪ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(32)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس مژدہ لے کر آئے بولے ہم ضرور اس شہر والوں کو ہلاک کریں گے بیشک اس کے بسنے والے ستم گار ہیں ۔ کہا اس میں تو لوط ہے فرشتے بولے ہمیں خوب معلوم ہے جو کچھ اس میں ہے ضرور ہم اُسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دیں گے مگر اس کی عورت کو وہ رہ جانے والوں میں ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے تو انہوں نے کہا: ہم ضرور اس شہر والوں کو ہلاک کرنے والے ہیں ۔ بیشک اس شہر والے ظالم ہیں ۔ فرمایا:اس میں تو لوط (بھی) ہے۔فرشتوں نے کہا: ہمیں خوب معلوم ہے جو کوئی اس میں ہے، ضرور ہم اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دیں گے سوائے اس کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا: اور جب ہمارے فرشتے آئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خوشخبری لے کر آئے تو انہوں  نے کہا: ہم ضرورحضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس شہر والوں  کو ہلاک کرنے والے ہیں ۔ بیشک اس شہر والے کفر اور طرح طرح کے گناہ کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کرنے والے ہیں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:اس میں  تو حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی موجود ہیں  جو کہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے مُقَرَّب بندے ہیں ، پھر تم اس شہر والوں  کو کیسے ہلاک کرو گے ۔فرشتوں  نے کہا: جو کوئی اس شہر میں  ہے وہ ہمیں  خوب معلوم ہے اور ہم حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حال سے غافل نہیں  ،ہم ضرور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والوں  کو نجات دیں  گے البتہ ان کی بیوی کو نجات نہیں  دیں  گے کیونکہ وہ عذاب میں  مبتلا ہو جانے والوں  میں  سے ہے۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۲، ص۸۹۱، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۲، ۶ / ۴۶۶، ملتقطاً)

             یہاں  فرشتوں  نے نجات دینے کی نسبت اپنی طرف کی ،اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے خاص بندوں  کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں  کیونکہ نجات دینا در حقیقت اللہ تعالیٰ کا کام ہے مگر فرشتوں  نے کہا ہم نجات دیں  گے،لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں  کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دوزخ سے نجات دیتے ہیں ۔ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنت دیتے ہیں  اورحضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مشکل کشائی کرتے ہیں ۔