Home ≫ ur ≫ Surah Al Ankabut ≫ ayat 46 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ﳓ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(46)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ: اور اے مسلمانو!اہل ِکتاب سے بحث نہ کرو مگر بہترین انداز پر۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تمہاری اہلِ کتاب سے بحث ہو تو بہترین انداز سے بحث کرو جیسے انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سے دعوت دے کر اور حجتوں پر آگاہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤ،یونہی بحث کے دوران و ہ سختی سے پیش آئیں تو تم نرمی سے پیش آؤ،وہ غصہ کریں تو تم حِلم اور بُردباری کا مظاہرہ کروالبتہ ان میں سے جو ظالم ہیں کہ زیادتی میں حد سے گزر گئے ، عناد اِختیار کیا ، نصیحت نہ مانی ، نرمی سے نفع نہ اٹھایا تو ان کے ساتھ سختی اختیار کرو۔ دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ کتاب جو ذِمّی ہیں اور جِزیَہ ادا کرتے ہیں ان کے ساتھ جب تمہاری بحث ہو تو احسن طریقے سے بحث کرو البتہ ان میں سے جن لوگوں نے ظلم کیا اور ذمہ سے نکل گئے اور جزیہ دینے سے منع کر دیا اور جنگ کے لئے تیار ہو گئے تو ان سے جھگڑنا تلوار کے ساتھ ہے ۔( خازن،العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۵۳، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۸۹۵، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۴۷۷، ملتقطاً)
عیسائیوں اور یہودیوں سے دینی اُمور میں بحث کرنے کا اختیار کس کو ہے؟
امام عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت سے کفار کے ساتھ دینی اُمور میں مناظرہ کرنے کا جواز ،اوراسی طرح علمِ کلام سیکھنے کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۸۹۵)
یاد رہے کہ عیسائیوں ، یہودیوں اور دیگر کافروں کے ساتھ دینی اُمور میں بحث اور مناظرہ کرناان علماء کا کام ہے جو ان کے باطل عقائد و نظریات کا بہترین اور مضبوط دلائل کے ساتھ رد کر سکتے ہوں اور ان کی طرف سے دین ِاسلام اور اس کی تعلیمات و اَحکام پر ہونے والے اعتراضات کا انتہائی تسلی بخش جواب دے سکتے ہوں اورمناظرہ کے فن میں بھی خوب مہارت رکھتے ہوں۔جوعالِم ایسی صلاحیت نہ رکھتا ہو اسے اور بطورِ خاص عام لوگ جنہیں عقائد و نظریات کی تفصیلی دلائل سے معلومات ہونا تو دور کی بات ،فرض عبادات سے متعلق شرعی احکام بھی ٹھیک سے معلوم نہیں ہوتے، انہیں یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر کفار سے دینی اُمور میں بحث مباحثہ کرنا حرام ہے اور ان لوگوں کا یہ سوچ کر بحث کرنے کی جرأت کرنا کہ ہم اپنے دین،عقیدے اور نظریات میں انتہائی مضبوط ہیں ،اس لئے یہودیوں ، عیسائیو ں یا کسی اور کافر سے دینی امور میں بحث کرنا ہمیں کوئی نقصان نہیں دے سکتا،دین و ایمان کی سلامتی کے حوالے سے انتہائی خطرناک اِقدام ہے اور ایسا شخص غیر محسوس انداز میں ایمان کے دشمن شیطان کے انتہائی خوفناک وار کا شکار ہے، اگر یہ شخص اپنے دین و ایمان کی سلامتی چاہتا اور قیامت کے دن جہنم کے اَبدی عذاب سے بچنا چاہتاہے تو ان سے ہر گز بحث نہ کرے ورنہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔افسوس!ہمارے معاشرے میں شیطان کے کارندے لوگوں کے دین و ایمان کو برباد کرنے کے لئے مصروفِ عمل ہیں اور انتہائی مُنَظَّم انداز میں مسلمانوں کے دلوں سے دین ِاسلام کی محبت اور اس دین کی طرف لگاؤ کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن مسلمان اپنے دین و ایمان کو بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے اسے بے دھڑک خطرے پر پیش کئے جا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل ِسلیم عطا فرمائے اور اپنے ایمان کی سلامتی اور حفاظت کی فکر کرنے اور ا س کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا: اور کہو:ہم اس پرایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا۔} یعنی جب اہل ِکتاب تم سے اپنی کتابوں کا کوئی مضمون بیان کریں تو ان سے کہو:ہم اس پرایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور جوتمہاری طرف نازل کیا گیا اور ہمارا اورتمہارا معبود ایک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۵۳، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۴۷۷، ملتقطاً)
اہل ِکتاب اپنی کتابوں کا مضمون بیان کریں تو سننے والے کو کیا کہناچاہے؟
جب اہل ِکتاب کسی شخص سے اپنی کتابوں میں موجود کوئی مضمون بیان کریں تو اسے سننے والے کو کیا کہنا چاہئے وہ اس آیت میں بیان ہوا اور یہی بات حدیث ِپاک میں ایک اور انداز سے بیان کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت ابونملہ انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرتھے اورایک یہودی شخص بھی وہیں موجودتھا،اس دوران وہاں سے ایک جنازہ گزرا تویہودی نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا:کیایہ مردہ باتیں کرتاہے؟رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ بہتر جاننے والا ہے۔ یہودی کہنے لگا:بے شک یہ باتیں کرتاہے ۔یہ سن کر سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! جب اہل ِکتاب تم سے کوئی مضمون بیان کریں تو تم نہ اُن کی تصدیق کرو نہ تکذیب کرو بلکہ یہ کہہ دو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور اس کی کتابوں پراور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے، تو (اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ) اگر وہ مضمون اُنہوں نے غلط بیان کیا ہے تو اس کی تصدیق کے گناہ سے تم بچے رہو گے اور اگر مضمون صحیح تھا تو تم اس کی تکذیب سے محفوظ رہو گے۔(سنن ابو داؤد،کتاب العلم، باب روایۃ حدیث اہل الکتاب،۳ / ۴۴۵، الحدیث: ۳۶۴۴، مسند احمد، مسند الشامیین، حدیث ابی نملۃ الانصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۶ / ۱۰۲، الحدیث: ۱۷۲۲۵)
یاد رہے کہ ہمارا ایمان قرآن کے علاوہ دیگر کتابوں پر بھی ہے لیکن عمل صرف قرآن پر ہے نیز دیگر کتابوں پر جو ایمان ہے وہ ان پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں ، موجودہ تحریف شدہ کتابوں پر نہیں بلکہ ان پر یوں ہے کہ اِن کتابوں میں جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔