Home ≫ ur ≫ Surah Al Ankabut ≫ ayat 49 ≫ Translation ≫ Tafsir
بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ-وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ(49)
تفسیر: صراط الجنان
{بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ: بلکہ وہ روشن نشانیاں ہیں ۔} اس آیت میں مذکور ضمیر ’’هُوَ‘‘ کا اشارہ قرآن مجید کی طرف ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہیں کہ قرآنِ کریم روشن آیتیں ہیں جو علماء اور حُفّاظ کے سینوں میں محفوظ ہیں ۔ روشن آیت ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ان کا اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والا ہونا ظاہر ہے اور یہ دونوں باتیں قرآنِ پاک کے ساتھ خاص ہیں اوراس کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں جو معجزہ ہو اور نہ ہی ایسی ہے کہ ہر زمانے میں سینوں میں محفوظ رہی ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ضمیر ’’هُوَ‘‘ کا مَرجَع سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرار دے کراس آیت کے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ سرورِ عالَم،محمد ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان روشن نشانیوں والے ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں اہل ِکتاب میں سے علم دیا گیا کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت پاتے ہیں ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۸۹۵، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۴۵۳-۴۵۴، ملتقطاً)
{وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ: اور ہماری آیتوں کا انکارصرف ظالم لوگ کرتے ہیں ۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکارصرف ظالم لوگ کرتے ہیں ،جیسا کہ یہودی جو کہ معجزات ظاہر ہونے کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے اور آخری رسول ہونے کو جان اور پہچان چکے لیکن آپ سے عناد کی وجہ سے آپ کے منکر ہوتے ہیں۔
اس آیت ِمبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء اور حُفّاظ کا بڑا ہی درجہ ہے کہ ان کے سینے قرآن کریم کے گنجینے ہیں۔ جس کاغذ پر قرآنِ مجیدلکھا جائے وہ عظمت والا ہے تو جس سینے میں قرآنِ پاک ہو وہ بھی عظمت والا ہے۔نیز یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ قرآنِ عظیم میں کبھی تحریف نہیں ہو سکتی کیونکہ تبدیلی اور تحریف کاغذ میں ہوسکتی ہے جبکہ قرآن تو خدا نے سینوں میں محفوظ کردیا ہے۔