Home ≫ ur ≫ Surah Al Ankabut ≫ ayat 8 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ-وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاؕ-اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(8)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا: اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی۔} شانِ نزول : یہ آیت اور سورۂ لقمان کی آیت نمبر14 اور سورۂ اَحقاف کی آیت نمبر15 حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں اور دوسری روایت کے مطابق حضرت سعد بن مالک زہری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئیں ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی ماں حمنہ بنت ِابی سفیان بن امیہ بن عبد ِشمس تھی اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سابقین اَوّلین صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں سے تھے اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ جب آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسلام قبول کیا تو آپ کی والدہ نے کہا : تو نے یہ کیا نیا کام کیا! خدا کی قسم اگر تو اس سے باز نہ آیا تو نہ میں کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی یہاں تک کہ مرجاؤں اوریوں ہمیشہ کے لئے تیری بدنامی ہو اور تجھے ماں کا قاتل کہا جائے۔ پھر اس بڑھیا نے فاقہ کیا اور ایک دن رات نہ کھایا، نہ پیا اور نہ سائے میں بیٹھی، اس سے کمزورہوگئی۔ پھر ایک رات دن اور اسی طرح رہی، تب حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اُس کے پاس آئے اور آپ نے اُس سے فرمایا کہ اے ماں! اگر تیری 100جانیں ہوں اور ایک ایک کرکے سب ہی نکل جائیں تو بھی میں اپنا دین چھوڑ نے والا نہیں ، تو چاہے کھا ،چاہے مت کھا ۔جب وہ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف سے مایوس ہوگئی کہ یہ اپنا دین چھوڑنے والے نہیں تو کھانے پینے لگی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حکم دیا کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور اگر وہ کفر و شرک کا حکم دیں تو نہ مانا جائے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۴۴۶)
کافر والدین کے حقوق سے متعلق 2شرعی احکام:
اس سے معلوم ہوا کہ بندے کو ماں باپ کا مادری پدری حق ضرور ادا کرنا چاہئے اگرچہ وہ کافر ہوں ۔اسی مناسبت سے یہاں کافر والدین کے حقوق سے متعلق 2شرعی احکام ملاحظہ ہوں۔
(1)…کافر والدین کا نفقہ بھی مسلمان اولاد پر لازم ہے۔
(2)…اگر کافر ماں باپ بت خانے وغیرہ سے گھر تک چھوڑنے کا کہیں تو انہیں گھر تک چھوڑے اور اگر وہ گھر سے بت خانے وغیرہ تک چھوڑنے کا کہیں تو انہیں نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ گھر تک چھوڑنا گنا ہ نہیں اور بت خانے چھوڑنا گناہ ہے۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۴۵۰)
شرعی احکام کے مقابلے میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرعی احکام کے مقابلے میں کسی رشتہ دار کا کوئی حق نہیں ، لہٰذا اولاد پر لازم ہے کہ شریعت کی طرف سے اجازت کے بغیر صرف ماں باپ کے کہنے پر شرعی احکام مثلاً روزہ وغیرہ رکھنا نہ چھوڑے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اطاعت ِوالدین جائزباتوں میں فرض ہے اگرچہ وہ خود مُرتکِبِ کبیرہ ہوں ، ان کے کبیرہ کاوبال ان پر ہے مگراس کے سبب یہ اُمورِ جائزہ میں ان کی اطاعت سے باہرنہیں ہوسکتا، ہاں اگروہ کسی ناجائز بات کاحکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت جائزنہیں، لَاطَاعَۃَ لِاَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِاللہ تَعَالٰی ( اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی بھی شخص کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔)( مسند امام احمد، مسند البصریین، بقیۃ حدیث الحکم بن عمرو الغفاری رضی اللّٰہ عنہ، ۷ / ۳۶۳، الحدیث: ۲۰۶۷۹)
ماں باپ اگرگناہ کرتے ہوں ان سے بہ نرمی وادب گزارش کرے، اگرمان لیں بہتر ورنہ سختی نہیں کرسکتا بلکہ ان کے لئے دعا کرے، اوران کا یہ جاہلانہ جواب دینا کہ یہ توضرور کروں گا یا توبہ سے انکارکرنا دوسراسخت کبیرہ ہے مگر مُطْلَقاً کفرنہیں جب تک کہ حرامِ قطعی کوحلال جاننا یاحکمِ شرع کی توہین کے طور پرنہ ہو، اس سے بھی جائز باتوں میں ان کی اطاعت کی جائے گی ہاں اگر مَعَاذَ اللہ یہ انکاربروجہ ِکفر ہو تووہ مُرتَد ہوجائیں گے، اورمرتد کے لئے مسلمان پرکوئی حق نہیں ۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۵ / ۲۰۴-۲۰۵)
شرعی احکام کے مقابلے میں ماں باپ کی اطاعت کے حوالے سے شرعی حکم اوپر بیان ہوا اور ان کے علاوہ دیگر افراد جیسے سیٹھ،افسر،حاکم وغیرہ سے متعلق بھی یہی حکم ہے کہ ان میں سے جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا کہے تو اس کی بات ہر گز نہیں مانی جائے گی ،یہاں اسی سے متعلق تین اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔
(1)… حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پسندیدہ اور ناپسندیدہ تمام اُمور میں ہرمسلمان آدمی پر(امیر کی) بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا اس وقت تک ضرور ی ہے جب تک وہ گناہ کا حکم نہ دے اور اگر وہ گناہ کا حکم دے تو نہ اس کی سنی جائے اور نہ اطاعت کی جائے۔( بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام ما لم تکن معصیۃ، ۴ / ۴۵۵، الحدیث: ۷۱۴۴)
(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’گناہ کے کاموں میں کسی کا حکم نہیں ماناجاتا بلکہ اطاعت تو نیک کاموں میں ہے۔( بخاری، کتاب اخبار الآحاد، باب ما جاء فی اجازۃ خبر الواحد الصدوق۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۹۲، الحدیث: ۷۲۵۷)
(3)…حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ۔( معجم الکبیر، عمران بن حصین یکنی ابا نجید۔۔۔ الخ، ہشام بن حسان عن الحسن عن عمران، ۱۸ / ۱۷۰، الحدیث: ۳۸۱)
افسوس! فی زمانہ اس حوالے سے مسلمانوں کی صورت ِحال انتہائی نازک ہے اوردُنْیَوی مَنفعت کے حصول اور دنیا کے نقصان سے بچنے کی خاطر اپنے سیٹھ،افسر،حاکم اور دیگر لوگوں کی وہ باتیں بے دھڑک مانتے چلے جاتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اور ا س کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کا حکم دیاگیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرنے میں مخلوق کی اطاعت کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ: اور اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ توکسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں ۔} اس کا معنی یہ ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے ا س لئے علم اور تحقیق کی بنا پر تو کوئی بھی کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک مان ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کا شریک ہونامحال ہے اور جہاں تک علم کے بغیر محض کسی کے کہنے سے اللہ تعالیٰ کا شریک ماننے کا معاملہ ہے تو جس چیز کا علم نہ ہو اسے کسی کے کہنے سے مان لینا تقلید ہے اور توحید کے قطعی دلائل ہوتے ہوئے محض تقلید سے کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک مان لینا انتہائی مذموم اور قبیح ہے، لہٰذا اس میں کسی کی بھی بات نہیں مانی جائے گی حتّٰی کہ والدین کی بھی ا س معاملے میں ہر گز اطاعت نہیں کی جائے گی۔