banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 101 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآىٕهَاۚ-وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُؕ-كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ(101)

ترجمہ: کنزالایمان یہ بستیاں ہیں جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس قابل نہ ہوئے کہ وہ اس پر ایمان لاتے جسے پہلے جھٹلاچکے تھے اللہ یونہی چھاپ لگادیتا ہے کافروں کے دلوں پر۔ ترجمہ: کنزالعرفان یہ بستیاں ہیں جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کرتشریف لائے تووہ اس قابل نہ ہوئے کہ اس پر ایمان لے آتے جسے پہلے جھٹلا چکے تھے۔ اللہ یونہی کا فروں کے دلوں پرمہر لگادیتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ تِلْكَ الْقُرٰى:یہ بستیاں ہیں۔} اس آیت میں خطاب حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے اور بستیوں سے وہ پانچ بستیاں مراد ہیں کہ جن کے احوال کا ذکر ما قبل آیات میں گزرا یعنی قومِ نوح،قومِ ہود،قومِ صالح، قومِ لوط اور قومِ شعیب کی بستیاں۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۳۵۳، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۵ / ۳۲۴، ملتقطاً)

             اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں ان بستیوں اور ان میں رہنے والوں کے بارے میں بتاتے ہیں ، ان کے حالات اور ان کے اپنے رسولوں کے ساتھ کئے گئے معاملات کی خبر دیتے ہیں تاکہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ جان لو کہ ہم رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کی ان کے دشمن کفار کے مقابلے میں کیسی مدد فرماتے ہیں اور کفار کو ان کے کفرو عناد اور سرکشی کی سزا میں کس طرح ہلاک کرتے ہیں ، لہٰذا مشرکینِ مکہ کو چاہئے کہ پچھلی قوموں کے حالات سے عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اپنی سرکشی سے باز آجائیں ورنہ ان کا انجام بھی انہی جیساہو گا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۱۲۳)

{ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ:تووہ اس قابل نہ ہوئے کہ اس پر ایمان لے آتے جسے پہلے جھٹلا چکے تھے۔} اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے متعدد اقوال نقل کئے ہیں۔

(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ عالمِ ارواح میں میثاق کے دن وہ لوگ جس چیز کو دل سے جھٹلا چکے تھے کہ صرف زبان سے ’’ بَلٰی‘‘ کہہ کر اقرار کر لیا اوردل سے انکار کیا تھا اسے نبی سے سن کر بھی نہ مانے بلکہ اسی انکار پر قائم رہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۵ / ۳۲۴)

(2)…امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم ان لوگوں کوہلاک کرنے اور عذاب کا مُعایَنہ کروانے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں بھیج دیتے تب بھی وہ اس چیز کو نہ مانتے جسے وہ پہلی زندگی میں جھٹلا چکے تھے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۱۲۳)

(3)… نبیوں کے معجزات دیکھنے سے پہلے جس چیز کو جھٹلا چکے تھے اسے معجزات دیکھ کر بھی نہ مانے۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۱۸۴، الجزء السابع)

(4)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری پر پہلے دن جس کا انکار کر چکے تھے آخر تک اسے نہ مانے جھٹلاتے ہی رہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۳۷۷)

{ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ:اللہ یونہی کا فروں کے دلوں پرمہر لگادیتا ہے۔}ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کے کفار کے دلوں پر مہر لگا دی اور انہیں ہلاک کر دیا اسی طرح آپ کی قوم کے ان کافروں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتاہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ لکھ چکا کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۱۲۳)