banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 110 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْۚ-فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ(110)قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ اَرْسِلْ فِی الْمَدَآىٕنِ حٰشِرِیْنَ(111)یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ(112)وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ(113)قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(114)قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ(115)قَالَ اَلْقُوْاۚ-فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ(116)وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ عَصَاكَۚ-فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَ(117)فَوَقَعَ الْحَقُّ وَ بَطَلَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(118)فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَ انْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ(119)وَ اُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَ(120)قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(121)رَبِّ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(122)

ترجمہ: کنزالایمان تمہیں تمہارے ملک سے نکا لا چاہتا ہے تو تمہارا کیا مشورہ ہے۔ بولے انہیں اور ان کے بھائی کو ٹھہرا اور شہروں میں لوگ جمع کرنے والے بھیج دے۔ کہ ہر علم والے جادوگر کو تیرے پاس لے آئیں۔ اور جادوگر فرعون کے پاس آئے بولے کچھ ہمیں انعام ملے گا اگر ہم غالب آئیں۔ بولا ہاں اور اس وقت تم مقرب ہوجا ؤ گے۔ بولے اے موسیٰ یا تو آپ ڈالیں یا ہم ڈالنے والے ہوں۔ کہاتمہیں ڈالو جب انہوں نے ڈالا لوگوں کی نگاہوں پر جادو کردیا اور انہیں ڈرادیا اور بڑا جادو لائے۔ اور ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ اپنا عصا ڈال تو ناگاہ وہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا۔ تو حق ثابت ہوا اور ان کا کام باطل ہوا۔ تو یہاں وہ مغلوب پڑے اور ذلیل ہوکر پلٹے۔ اور جادوگر سجدے میں گرادئیے گئے۔ بولے ہم ایمان لائے جہان کے رب پر۔ جو رب ہے موسیٰ اور ہارون کا۔ ترجمہ: کنزالعرفان یہ تمہیں تمہارے ملک سے نکا لنا چاہتا ہے توتم کیا مشورہ دیتے ہو؟ انہوں نے کہا: انہیں اور ان کے بھائی کو کچھ مہلت دواور شہروں میں جمع کرنے والوں کو بھیج دو۔ وہ تمہارے پاس ہر علم والے جادوگرکولے آئیں گے۔ اور (پھر) جادوگر فرعون کے پاس آگئے تو کہنے لگے :اگر ہم غالب آگئے تو (کیا) ہمارے لئے یقینی طور پر کوئی انعام ہوگا۔ ۔(فرعون نے) کہا: ہاں اور بیشک تم تو (میرے) قریبی لوگوں میں سے ہوجا ؤ گے۔ ۔(جادوگروں نے) کہا: اے موسیٰ! یا تو آپ (اپنا عصا) ڈالیں یا ہم (کچھ) ڈالتے ہیں ۔ فرمایا: تم ہی ڈالو ۔ جب انہوں نے ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انہیں خوف زدہ کردیا اور وہ بہت بڑا جادولے کر آئے۔ اور ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ تم اپنا عصا ڈال دو تو اچانک وہ عصا ان کی بناوٹی چیزوں کو نگلنے لگا۔ تو حق ثابت ہوگیا اور جو کچھ وہ کررہے تھے سب باطل ہوگیا۔ تو وہ وہیں مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر پلٹے۔ اور جادوگر سجدے میں گرادئیے گئے۔ وہ کہنے لگے:ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائے ۔ جو موسیٰ اور ہارون کارب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ:تو تمہارا کیا مشورہ ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 12 آیات میں مذکور واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ درباریوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات دیکھ کر انہیں بہت ماہر جادوگر سمجھا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے جادو کے زور سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا کر مملکت پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں تو فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا: تم اس کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو؟ انہوں نے کہا: تم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چند روز کی مہلت دو اور شہروں میں اپنے خاص آدمی بھیج دو تاکہ وہ ایسے جادو گر جمع کر کے لائیں جو جادو میں ماہر ہوں اور سب پر فائق ہوں تا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مقابلہ کر کے انہیں شکست دیں۔ چنانچہ فرعون نے اپنی مملکت کے تمام ماہر جادو گروں کو جمع کر لیا۔ ان جادو گروں کو علم تھا کہ جس مقصد کے لئے انہیں طلب کیا گیا ہے وہ بڑا اہم ہے چنانچہ انہوں نے فرعون سے کہا: اگر ہم غالب آگئے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شکست دے دی تو کیا ہمیں یقینی طور پر کوئی شاہانہ انعام ملے گا۔ فرعون یہ تسلی آمیز الفاظ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: بے شک تمہیں انعام واکرام سے نوازا جائے گا اور صرف یہی نہیں بلکہ تمہیں میرے خاص قریبی لوگوں میں داخل کر لیا جائے گا۔ یہ جادوگر کل ستر ہزار تھے جن میں چند سردار تھے، جب مقابلے کا دن آیا تو سب مقررہ جگہ پر جمع ہوئے، مقابلے کا آغاز ہوا توجادوگروں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے موسیٰ! یا تو آپ پہلے اپنا عصا زمین پرڈالیں یا ہم اپنے پاس موجود چیزیں ڈالتے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: تم ہی پہلے ڈالو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمانا اس لئے تھا کہ آپ کو ان کی کچھ پرواہ نہ تھی اور آپ کو کامل اعتماد تھا کہ ان کے معجزے کے سامنے سحر ناکام و مغلوب ہوگا۔ جب انہوں نے اپنا سامان ڈالا جس میں بڑے بڑے رسے اور لکڑیاں تھیں تو وہ اژدہے نظر آنے لگے اور میدان ان سے بھرا ہوا معلوم ہونے لگا۔ لوگ یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وحی فرمائی کہ تم اپنا عصا ڈال دو۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا عصا ڈالا تو وہ ایک عظیم الشان اژدہا بن گیا۔ وہ جادو گروں کی سحر کاریوں کو ایک ایک کرکے نگل گیا اور تمام رسے اور لٹھے جو اُنہوں نے جمع کئے تھے جو تین سو اونٹ کا بار تھے سب کا خاتمہ کردیا جب موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو دستِ مبارک میں لیا تو پہلے کی طرح عصا ہوگیا اور اس کا حجم اور وزن اپنے حال پر رہا یہ دیکھ کر جادو گروں نے پہچان لیا کہ عصائے موسیٰ سحر نہیں اور قدرتِ بشری ایسا کرشمہ نہیں دکھا سکتی ضرور یہ امرِسَماوی ہے چنانچہ یہ معجزہ دیکھ کران پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار ’’ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یعنی ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائے  ‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے اور ان کا حال ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے پیشانیاں پکڑ کر زمین پر لگادیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۰-۱۱۷، ۲ / ۱۲۵-۱۲۷، قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۴ / ۱۸۷، الجزء السابع، روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۰-۱۲۱، ۵ / ۳۸، ملخصاً)

{ قَالُوْا یٰمُوْسٰى:بولے اے موسیٰ۔} جادوگروں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ ادب کیا کہ آپ کو مقدم کیا اور آپ کی اجازت کے بغیر اپنے عمل میں مشغول نہ ہوئے، اس ادب کا عوض انہیں یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان و ہدایت کی دولت سے سرفراز فرما دیا ۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۴ / ۱۸۶، الجزء السابع)

 { سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ: لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔} اس آیت میں جادو گروں کے جادو کے اثر کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے پھینکے ہوئے رسوں اور لاٹھیوں کی حقیقت نہ بدلی بلکہ لوگوں کی نگاہوں پر اثر ڈال دیا کہ لوگوں کو رینگتے دوڑتے سانپ محسوس ہوئے ۔اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کے جادوگروں کے جادو کی صورت یہ تھی یعنی حقیقت نہ بدلی تھی۔

{ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ:اور وہ بہت بڑا جادولے کر آئے۔} جب جادو گروں نے موٹے رسے اور لمبی لاٹھیاں ڈالیں تو وہ پہاڑوں کی مانند اژدہے بن گئے جس سے میدان بھر گیا اور اژدہے ایک دوسرے پر چڑھنے لگے۔ ایک قول یہ ہے کہ جادو گروں نے رسیوں پر پارہ مل دیا اور لاٹھیوں میں بھی پارہ ڈال دیا پھر انہیں زمین پر پھینک دیا، جب ان پر سورج کی روشنی پڑی تو ایسے محسوس ہونے لگا کہ یہ دوڑتے ہوئے سانپ ہیں۔ وہ میدان ایک میل لمبا تھا اور پورا میدان سانپوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر لوگ خوف زدہ ہو گئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۲ / ۱۲۷)