Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 123 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْۚ-اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَاۤ اَهْلَهَاۚ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(123)لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ(124)قَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ(125)وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَاؕ-رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ(126)
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ فِرْعَوْنُ:فرعون بولا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادو گر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئے تو یہ دیکھ کر فرعون بولا: میری اجازت کے بغیر تم ایمان کیوں لے آئے؟ یہ تو بہت بڑا دھوکہ ہے جو تم اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سب نے متفق ہو کر اس شہر میں کیا ہے ۔تم سب شاگرد ہو اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمہارے استاد ہیں ، تم نے خفیہ ساز باز کر کے یہ مقابلہ کیا اور تم جان بوجھ کر ہار گئے تاکہ تم شہر کے لوگوں کو اس سے نکال دو اور خود اس پر مُسلَّط ہوجاؤ تو اب تم جان جاؤ گے کہ میں تمہارے ساتھ کس طرح پیش آتا ہوں اور میں تمہیں کیا سزا دوں گا۔ میں ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا پھر تم سب کو دریائے نیل کے کنارے پھانسی دے دوں گا۔ فرعون کی اس گفتگو پر جادو گروں نے یہ جواب دیا: بیشک ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف پلٹنے والے ہیں ،تو ہمیں موت کا کیا غم ؟ کیونکہ مرنے کے بعد ہمیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی لِقاء اور اس کی رحمت نصیب ہوگی اور جب سب کو اسی کی طرف رجوع کرنا ہے تو وہ خود ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ اس کے بعد ان جادو گروں نے صبر کی دعا کی کہ’’ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ‘‘ اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔
{ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ:پھر تم سب کو سُو لی دوں گا۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ دنیامیں پہلا سولی دینے والا اور پہلا ہاتھ پاؤں کاٹنے والا فرعون ہے۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۴ / ۱۸۷، الجزء السابع)
{ قَالُوْا:(جادوگر) کہنے لگے ۔} اس سے معلوم ہوا کہ مومن کے دل میں جذبۂ ایمانی کے غلبے کے وقت غیرُاللہ کا خوف نہیں ہوتا۔ حق قبول کرنے کے بعد ان جادو گروں کا حال یہ ہوا کہ فرعون کی ایسی ہوش رُبا سزا سن کر بھی ان کے قدم ڈگمگائے نہیں بلکہ انہوں نے مجمعِ عام میں فرعون کے منہ پر اس کی دھمکی کا بڑی جرأت کے ساتھ جواب دیا اور اپنے ایمان کو کسی تَقیہ کے غلاف میں نہ لپیٹا۔
{ وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ:اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا یہ لوگ دن کے اوّل وقت میں جادوگر تھے اور اسی روز آخر وقت میں شہید۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ۲ / ۱۲۸)
معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحبت نے پرانے کافروں کو ایک دن میں ایمان، صحابیت ، شہادت تمام مَدارج طے کر ا دئیے، صحبت کا فیض سب سے زیادہ ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فرعون انہیں شہید نہ کرسکا تھا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۵ / ۳۳۹)